ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر اور وفاقی وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال کے درمیان حالیہ ملاقات میں پاکستان کے صحت کے شعبے کے درپیش چیلنجز اور ان کے پائیدار حل پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اضافی سیکرٹری صحت اور ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ بھی اس ملاقات میں موجود تھے جہاں دونوں فریقین نے ملک گیر صحت کی حوالگی کے مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ورلڈ بینک کے نمائندے نے پچھلے چھ ماہ کے دوران وزارتِ صحت کی کارکردگی کو سراہا اور جاری منصوبوں کے مکمل نفاذ کے لیے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ وفاقی وزیرِ صحت نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں صحت کے نظام کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے مگر حکومت نے وسیع اصلاحاتی اقدامات شروع کر رکھے ہیں تاکہ عوام کو بہتر طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔وزیرِ صحت نے واضح کیا کہ دور دراز اور پسماندہ علاقوں تک خدمات پہنچانے کے لیے ٹیلی میڈیسن کی توسیع اولین ترجیح ہے تاکہ طبی رسائی میں بہتری آئے اور مقامی سطح پر ابتدائی علاج ممکن ہو۔ اسی ساتھ وزارت یونورسل میڈیکل ریکارڈز کے نفاذ پر بھی توجہ مرکوز کر رہی ہے تاکہ مریضوں کے طبی ڈیٹا کی حفاظت اور موثر دیکھ بھال ممکن بنائی جا سکے۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ ملک میں تقریباً 68 فیصد بیماریوں کی بنیادی وجہ آلودہ پانی ہے، اس لیے صاف پینے کے پانی کی فراہمی، عوامی شعور اور اجتماعی کوششیں ہی زیادہ تر امراض کی روک تھام کا حل ہیں۔ وزیرِ صحت نے کہا کہ اس ضمن میں ایک قومی سطح کا مربوط حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہے تاکہ پانی کی فراہمی اور صحت عامہ کے اقدامات کو مربوط انداز میں نافذ کیا جا سکے۔وزیرِ صحت نے زور دے کر کہا کہ صحت کے شعبے کی اصل ذمہ داری لوگوں کو بیمار ہونے سے بچانا ہے نہ کہ صرف بیماریوں کا علاج کرنا۔ وہی حکمتِ عملی اسپتالوں میں مریضوں کے بوجھ کو کم کر سکتی ہے اور نظامِ صحت کو زیادہ پائیدار بنا سکتی ہے۔ مریضوں کے بوجھ میں کمی کے لیے روک تھام، ویکسین مہمات اور بنیادی پبلک ہیلتھ اقدامات پر توجہ ناگزیر ہے۔ملاقات کے اختتام پر وفاقی وزیرِ صحت نے عوامی تحفظ کے لیے مخصوص اقدامات کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ وزارت مستقبل میں قابلِ عمل اقدامات اٹھائے گی تاکہ قابلِ تفریق بیماریوں سے عوام کی حفاظت ممکن بنے اور صحت کا نظام مضبوط و دیرپا ہو۔ اس ملاقات میں اٹھائے گئے نکات اور تعاون کے عزم سے امید ظاہر کی گئی کہ آئندہ برسوں میں صحت کے نظام میں قابلِ ذکر بہتری آئے گی۔
