ایک سے پانچ مرلے غریب کی جھونپڑی پر پراپرٹی ٹیکس نافذ
ظہیراحمداعوان چئیرمین سٹیزن ایکشن کیمٹی

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک ملک میں عوام کا خون پسینہ صرف اس لیے بہایا جائے کہ اشرافیہ کی عیاشیوں کا سلسلہ نہ ٹوٹے۔ ماچس کی ڈبیا سے لے کر روزمرہ استعمال کی ہر شے پر ٹیکس، یوٹیلٹی بلوں پر ٹیکس، اور تو اور، ٹیکس کے اندر مزید ٹیکس! ہوشرباء مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کا بوجھ تو پہلے ہی کمر توڑ رہا تھا، اب عوام پر ایک اور نئے اضافی بوجھ کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔حکومت اگر کسی بات پر یکسو ہے، تو وہ صرف اور صرف ٹیکسوں کی وصولی ہے۔ عام شہری پیدائش سے لے کر مرنے تک ٹیکس ادا کرتا ہے، مگر اس کے بدلے میں اسے کیا ملتا ہے؟پانچ مرلے تک پراپرٹی ٹیکس معافی ختم! عوام کو سزا کیوں؟
پنجاب میں ایک وقت ایسا آیا تھا جب عام شہریوں کی حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ایک مرلے سے پانچ مرلے تک کے گھریلو صارفین پر پراپرٹی ٹیکس ختم کر دیا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا ریلیف تھا جس سے لاکھوں عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن، موجودہ حکومت نے آتے ہی یہ ریلیف واپس لے لیا اور غریبوں کے ایک سے پانچ مرلے کے گھروں پر پراپرٹی ٹیکس دوبارہ عائد کر دیا۔یہ اقدام دراصل محکمہ ٹیکسیشن کی ناکامی کا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر ڈالنے کے مترادف ہے۔ کیا یہ کھلی ناانصافی نہیں کہ سرمایہ داروں، صنعت کاروں، وڈیروں، جاگیرداروں، اور کمرشل صارفین سے پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے میں ناکامی کا خمیازہ ایک سے پانچ مرلے کے عام گھریلو صارفین ادا کریں؟ٹیکس چوری میں سہولت کاری اور عیاشیاں سوال یہ ہے کہ ٹیکسوں کی آمدنی جاتی کہاں ہے؟ دنیا بھر میں شہری خوشی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا پیسہ ایمانداری سے ان ہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگا، جہاں سرکاری ادارے، تھانہ کچہری، سکول، ہسپتال، اور میونسپل کارپوریشن شہریوں کی سہولت کے لیے کام کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں؟ ہمارے ہاں ٹیکسوں کی بھرمار کے باوجود عوام الناس کو ہی ذلیل کیا جاتا ہے۔ سرکاری محکمے اور افسران عوام پر بادشاہت چلاتے ہیں۔ غریب آدمی کا حال یہ ہے کہ اس کے لیے تعلیم، صحت، روزگار، صاف پانی، اور صاف ماحول کچھ بھی میسر نہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنا رخ درست کرے۔ بڑے بڑے سیاستدان، سرمایہ کار، صنعت کار، اور کمرشل سیکٹر جو ٹیکس چوری کرتے ہیں، ان سے ایمانداری سے وصولی کی جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ محکمہ ٹیکسیشن خود اس اشرافیہ کا سہولت کار بنا ہوا ہے جو غریب عوام کے پیسے سے عیاشیاں کرتی ہے۔
تعلیم کی نجکاری: محرومی کا نیا دروازہ انتہائی پریشان کن بات یہ ہے کہ ایک طرف ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جا رہا ہے اور دوسری طرف سرکاری سکولوں کی نجکاری شروع کر دی گئی ہے، جن میں عام غریب اور سفید پوش لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جب یہ سکول نجکاری کی بھینٹ چڑھ جائیں گے، تو لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ غریب والدین پرائیویٹ اداروں کی مہنگی فیسیں کبھی ادا نہیں کر سکتے۔ تعلیم پہلے ہی غریب کی پہنچ سے دور ہو رہی تھی، اب یہ دروازہ بھی بند کیا جا رہا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ اس ظلم پر نظر ثانی کرے۔ ایک سے پانچ مرلے تک کے گھروں پر یہ نیا ٹیکس عوام کے لیے اذیت سے کم نہیں۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایک سے پانچ مرلے تک پراپرٹی ٹیکس کو فوری طور پر معاف کیا جائے۔ یہ ملک کے غریب شہری کا حق ہے، جس کی کمائی پر ڈاکا ڈالنا بند کیا جائے۔
News Link : Property Tax on One to Five Marla Homes: An Injustice
