کیمرے کی حدِ نگاہ تک کارکردگی — حقیقت اور سراب

newsdesk
6 Min Read

کیمرے کی حدِ نگاہ تک کارکردگی — حقیقت اور سراب

ظہیراحمداعوان چئیرمین سٹیزن ایکشن کیمٹی

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام نے حقیقت پسندی، انتھک محنت، اجتماعی نظم و ضبط اور ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال سے اپنی قوموں کے مستقبل کو روشن بنایا ہے۔ ان ملکوں نے یہ اصول اپنایا کہ غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے انہیں درست کیا جائے، کمزوریوں کو تسلیم کر کے اصلاحی اقدامات کیے جائیں اور ایسے منصوبے بنائے جائیں جو آنے والی نسلوں کے لیے ترقی کی بنیاد بن سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج چین، جاپان، کوریا، یورپ، امریکہ اور روس نت نئی ایجادات اور پالیسیوں کے ذریعے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔

چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں کرپشن کے خلاف سخت ترین قوانین نافذ کیے گئے۔ کرپشن پر سزائے موت کے قانون نے اس ناسور کی جڑ کاٹ دی، جس کے نتیجے میں چین قلیل مدت میں ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل آیا۔ یہ سب حقیقت پسندانہ سوچ اور جرات مندانہ فیصلوں کا نتیجہ تھا۔

اب ذرا اپنے پیارے پاکستان کا جائزہ لیجیے۔ وسائل کی کمی نہیں، اہل اور مخلص افراد کی بھی کمی نہیں، لیکن افسوس کہ ریاستی مشینری — بیوروکریسی، سیاست دان، جج اور جرنیل — جن پر عوامی خدمت اور ترقیاتی منصوبوں کی ذمہ داری عائد تھی، اکثر اس ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے رہے۔ اقتدار کے کھیل نے قومی ترقی کے ایجنڈے کو پس منظر میں دھکیل دیا۔

ہمارے ہاں بیوروکریسی کی کارکردگی عشروں سے کاغذی کارروائی، اجلاسوں اور نمائشی رپورٹوں تک محدود رہی ہے۔ پہلے یہ رپورٹس انتہائی پروفیشنل کمپنیوں سے بنوائی جاتیں تاکہ “کارکردگی” کا ایک خوشنما نقشہ دکھایا جا سکے۔ اب یہی روایت جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پردے میں جاری ہے۔

آج محکموں اور سیاست دانوں نے اس اصول کو اپنا لیا ہے کہ “جو دکھتا ہے، وہ بکتا ہے”۔ کیمروں کے سامنے ترقی کے دعوے پیش کیے جاتے ہیں، فوٹو سیشن اور ویڈیوز کے ذریعے یہ دکھایا جاتا ہے کہ ملک میں شاندار کام ہو رہا ہے۔ مقصد یہ نہیں کہ اصل مسائل حل ہوں بلکہ یہ کہ عوام کو دکھایا جائے کہ سب کچھ بہتر ہے، اور اس “دکھاوے” کو پروان چڑھایا جائے۔

تمام اداروں نے سروس میں بہتری، حقیقی کارکردگی یا عوام کو ریلیف دینے کے بجائے صرف “کھلی کچہریوں” کے انعقاد کو اپنی کامیابی کا پیمانہ بنا لیا ہے۔ ان کھلی کچہریوں میں شکایات سنی جاتی ہیں، تصاویر اور ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور پھر میڈیا میں یہ تاثر پیش کیا جاتا ہے کہ عوام کے مسائل حل کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں شکایات روزانہ کی بنیاد پر عدالتوں اور متعلقہ اداروں تک پہنچتی ہیں، مگر ان کے فیصلے برسوں التوا میں رہتے ہیں۔ عام شہری درخواستیں دیتے دیتے، کیس دائر کرتے کرتے آخرکار تھک جاتے ہیں اور انصاف کے حصول سے مایوس ہو کر ہار مان جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ لاتعداد بے شمار مسائل مہنگائی بےروزگاری لاقانونیت، صاف پانی،بجلی گیس، سیوریج کے مسائل، کھلے مین ہولز، کچرے کے ڈھیر اور ٹوٹی سڑکیں اپنی جگہ برقرار رہتی ہیں۔ صفائی مہمات اور ترقیاتی منصوبے محض کیمرے کے سامنے تک محدود ہوتے ہیں۔ جیسے ہی روشنی بجھتی ہے اور کیمرہ بند ہوتا ہے، کام بھی رک جاتا ہے۔

یہ روش عام آدمی کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ شہری دفاتر کے چکر لگاتے ہیں، شکایات درج کراتے ہیں، مگر جواب میں یا تو رسمی تسلی ملتی ہے یا ڈیجیٹل رپورٹ کہ “سب اچھا ہے”۔ زمینی حقائق مگر چیخ چیخ کر کچھ اور کہتے ہیں۔

یہ منظر ہمیں ایک پرانی کہاوت یاد دلاتا ہے: “کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔” ہماری بیوروکریسی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت میں ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اگر میڈیا مثبت تصویر دکھا دے تو مسئلہ حل ہوگیا، حالانکہ حقیقت کی دیوار بہت موٹی اور سخت ہے۔

یہ طرزِ عمل عوامی اعتماد کو زائل کر رہا ہے۔ ترقی کے خواب دکھا کر انہیں حقیقت سے محروم کرنا قوم کو مایوسی اور بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیلتا ہے۔ جب تک ادارے نمائشی کارکردگی کے خول سے نکل کر شفافیت، جوابدہی اور حقیقی خدمت کے اصولوں کو اپنانے کا حوصلہ نہیں کریں گے، ملک ترقی کے راستے پر سنجیدگی سے گامزن نہیں ہو سکتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری محکمے اور سیاسی قیادت فوٹو سیشن اور بیانات کے بجائے زمینی حقائق پر توجہ دیں۔ عوامی شکایات کے فوری اور پائیدار حل کے لیے مؤثر نظام قائم کیا جائے۔ ترقیاتی منصوبوں کے آغاز سے اختتام تک مانیٹرنگ کی جائے اور ہر سطح پر شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنایا جائے۔

پاکستانی عوام اب محض “دکھاوے” کے نہیں بلکہ حقیقی کارکردگی کے منتظر ہیں۔ اگر ادارے یہ حقیقت سمجھ لیں اور عملی اقدامات شروع کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان بھی اس دوڑ میں شامل نہ ہو سکے جس میں چین، جاپان اور دیگر قومیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ بصورت دیگر، کیمرے کی روشنی اور رپورٹوں کے انبار ایک سراب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھیں گے۔

Zaheer Ahmed Awan

email: zaheerahmedawan@gmail.com @XTwitter: mzaheerawan facebook: zaheerahmedawan Youtube: @zaheerahmedawanpakistani

Share This Article
1 تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے