صدر آصف علی زرداری نے بیس ستمبر دو ہزار پچیس کو جامعہ کشغر کا دورہ کیا جہاں ان کا پرتپاک استقبال جامعہ کے پارٹی سیکرٹری دِنگ بانگ وین، کشغر کے چینی کمیونسٹ پارٹی سیکرٹری یاو نِنگ، اساتذہ اور طلبہ نے کیا۔ صدر کے ہمراہ سینیٹر سلیم مندوی والا، سندھ کے وزیر سید ناصر حسین شاہ، پاکستان کے سفیر برائے چین اور چین کے سفیر برائے پاکستان بھی موجود تھے۔
صدر کو جامعہ کی تاریخ اور عملی امور کے بارے میں بریفنگ دی گئی کہ یہ ادارہ سن انیس سو باسٹھ میں قائم ہوا اور دو ہزار پندرہ میں مکمل جامعہ کا درجہ پایا۔ جامعہ کشغر اب تین کیمپس، چالیس ہزار سے زائد طلبہ و اساتذہ پر مشتمل ہے جس میں متعدد سو غیر ملکی طلبہ بھی شامل ہیں اور آئندہ برسوں میں یہ تعداد تقریباً پچاس ہزار تک پہنچنے کی توقع ہے۔
صدر نے جامعہ کی مختلف شعبوں میں خدمات کو سراہا جن میں سائنس، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، زراعت، معاشرتی علوم، فنون، ثقافت، موسیقی اور رقص شامل ہیں۔ انہوں نے اس ادارے کو پاکستان کے نزدیک ترین چینی جامعہ قرار دیتے ہوئے اسے علمی اور ثقافتی ربط کے لیے ایک پل قرار دیا۔ اس موقع پر صدر نے دورہ کشغر کے حوالے سے نوجوانوں اور تعلیمی سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیا تاکہ دونوں ممالک کے دیرپا تعلقات مستحکم رہیں۔
صدر نے جامعہ میں قائم مرکزِ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں اور اس مرکز کے کردار کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت تحقیق اور تعاون کے لیے اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مرکز باہمی اقتصادی و تعلیمی روابط کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
صدر نے طلبہ و اساتذہ سے گفتگو میں انہیں علمی اور ثقافتی روابط گہرا کرنے کی ترغیب دی۔ پاکستانی طلبہ جن میں گلگت، ہنزہ، دیر اور چترال کے نوجوان شامل تھے، نے بتایا کہ ان کی فیس اور رہائش چینی حکومت کی طرف سے مکمل طور پر فراہم کی جاتی ہے اور انہیں خوراک اور دیگر ضروریات کے لیے وظائف بھی ملتے ہیں۔ صدر نے انہیں محنت کرنے اور پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔
دورہ کشغر کے دوران صدر نے جامعہ کے انتظامی اور اکیڈمک وفد کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور تعلیمی تعاون، طلبہ کے معیارِ زندگی اور مشترکہ تحقیقی منصوبوں کو مزید فروغ دینے پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس دورے نے دونوں ممالک کے تعلیمی اور ثقافتی تبادلوں کو نئی سمت دینے کی توقع پیدا کی ہے۔
