نیشنل پریس کلب میں عوامی ورکرز پارٹی کے سیمینار میں مقررین نے کہا کہ حالیہ تباہ کن سیلاب محض قدرتی سانحات نہیں بلکہ ریاستی و معاشی پالیسیوں، نیولبرل ترقیاتی ماڈلز اور غیر منصوبہ بند تعمیرات کا نتیجہ ہیں۔
سیمینار "ماحولیاتی بحران اور ریاستی پالیسیوں” کے عنوان سے منعقد ہوا اور اس میں ملک کے مختلف شہروں سے طلبہ، ترقی پسند سیاسی کارکنان، کچی آبادیوں کے رہائشی، دانشور اور شہری بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ پروگرام میں بخشل تھہلو، عاصم سجاد، بابا جان، نیلم نگار، زبیر تور والی اور طوبیٰ سید نے خطاب کیا اور ملکی ماحولیاتی بگاڑ کے اسباب پر تفصیلی گفتگو کی۔
مقررین نے واضح کیا کہ ٹمبر اور ریئل اسٹیٹ مافیا، بڑے ہوٹل مالکان، کان کنی کی کمپنیاں اور عسکری تعمیراتی ادارے جیسے ایف ڈبلیو او، این ایل سی اور گرین ٹورزم بے قابو تعمیرات کے ذریعے ماحولیاتی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور درجۂ حرارت میں اضافہ سیلاب کی ایک وجہ ضرور ہیں، مگر حکمران طبقے کے مفادات نے اس بحران کو گہرا کیا ہے اور غیر منصوبہ بند ترقی نے آفات کے اثرات بڑھا دیے ہیں۔
مقررین نے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے مطالبات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ حل نہ صرف غیر منطقی ہیں بلکہ مقامی آبادیوں کی بے دخلی، زرعی زمینوں کی بربادی اور ماحولیاتی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے دیامر بھاشا جیسے منصوبوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایسے پروجیکٹس ملک کو بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑ دیتے ہیں، جس کی قیمت عام محنت کش عوام کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
سیمینار میں سیاسی و دانشور حلقوں کی اس مسئلے پر خاموشی پر افسوس ظاہر کیا گیا اور کہا گیا کہ اکثر افراد اقتدار کی رسہ کشی اور ذاتی مفادات میں مصروف ہیں، جبکہ ملک گیر سطح پر ماحولیاتی پالیسیوں پر بامقصد بحث اور مزاحمت درکار ہے۔ حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کے ساتھ تصویری ہمدردی اور بین الاقوامی امداد کے حصول کے اقدامات کو صورتِ حال کے حقیقی حل سے توجہ ہٹانے والا قرار دیا گیا۔
شرکاء نے موجودہ ترقیاتی ماڈل کو عوام اور ماحول دونوں کا دشمن قرار دیا اور کہا کہ ریاستی ادارے زمین، پانی، جنگلات اور معدنی وسائل سے محنت کش طبقات کو محروم کر کے مالی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں متفقہ طور پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ مسئلے کا حل محض فطری نظاموں کے تحفظ تک محدود نہیں بلکہ ایک جامع "ماحولیاتی سیاست” ہے، جو محنت کش عوام کے حقوق، استحصال کے خاتمے، سامراجی قرضوں کی مخالفت اور پسماندہ علاقوں کو بااختیار بنانے پر مبنی ہو۔
مقررین نے یہ بھی بتایا کہ ملک کی نوجوان آبادی، جو عمر کے اعتبار سے کم ہے، براہِ راست اس بگڑتے ہوئے ماحولیاتی بحران سے متاثر ہورہی ہے اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے ایک ترقی پسند اور جمہوری معاشی و سیاسی ماڈل ناگزیر ہے۔ سیمینار کا اختتام اس عزم کے ساتھ کیا گیا کہ ترقی پسند قوتیں ماحولیاتی انصاف کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گی اور استحصالی نظام کے خلاف ملک گیر سطح پر عوامی تحریک مضبوط کریں گی۔
