سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے وزیر اعظم کے اشارہ کردہ اقدامات پر تیز عملدرآمد، پالیسی اصلاحات اور بین الوزارتی ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔ کمیٹی نے بارڈرز کی بحالی، ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے قواعد، غیر ملکی چیمبرز کے قیام، مفاہمتی مراسیم کے عملی نفاذ، برآمدی کونسلز کی توسیع اور سرکاری اداروں کی نجکاری و احتساب کی صورتِ حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور متعلقہ وزارتوں و اداروں کو واضح ہدایات جاری کیں۔
کمیٹی نے بدینی بارڈر کے فوری فعال ہونے میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا اور روٹ کی خراب حالت، بنیادی سہولیات کا فقدان اور افغان جانب سے تعاون کی کمی کو معاملات کی بڑی وجہ قرار دیا۔ کمیٹی نے چالیس کلومیٹر طویل سڑک منصوبے کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے، وزارتِ تجارت، وزارتِ داخلہ اور حکومتِ بلوچستان کے درمیان بہتر تال میل یقینی بنانے اور پیشرفت مانیٹر کرنے کے لیے ایک فوکل پرسن کے تقرر پر زور دیا۔ متعلقہ فریقین کے باہمی اجلاس اور افغان جانب کے ساتھ ہم آہنگی پر بھی زور دیا گیا اور سرحدی معائنہ جلد کرانے کی تجویز پیش کی گئی۔
ایران کے ساتھ جاری بارٹر ٹریڈ کے فریم ورک، بالخصوص SRO 642(1)/2023 کے نفاذ میں درپیش مسائل پر کمیٹی نے گہری تشویش ظاہر کی۔ وزارتِ تجارت کی جانب سے اس نوٹیفکیشن کو عملی شکل دینے میں بیوروکریٹک تاخیر پر تحفظات اٹھائے گئے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ بارٹر ٹریڈ کا فریم ورک کاروباری تا کاروباری لین دین کو سہل بنائے، واضح شرائط مقرر ہوں اور وزارتِ تجارت بین اللوازمات کے لیے وزارتِ خارجہ، ایف بی آر اور لا ڈویژن کے ساتھ فوری روابط قائم کرے تاکہ تاجروں کے مفادات محفوظ رہیں اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی بھی پاسداری ہو۔
غیر ملکی ممالک کے چیمبرز آف کامرس کے قیام کے عمل میں موجود خامیوں، طویل کارروائی، غیر واضح پروٹوکولز اور پرانی پالیسیوں پر کمیٹی نے تشویش ظاہر کی۔ درخواستوں کی تاخیر، زیر التوا کیسز میں خامیاں اور بعض چیمبرز کی طویل غیرفعالی جیسے مسائل اٹھائے گئے۔ کمیٹی نے طریقہ کار کو سادہ بنانے، فوکل پرسنز مقرر کرنے، سفارت خانوں کے ذریعے تصدیق کو نو اوبجیکٹیو کاغذی این او سی پر ترجیح دینے اور بیرون ملک تعینات تجارتی محکمہ جات کے ذریعے پاکستان کے چیمبرز کے لیے لابنگ بڑھانے کی ہدایت کی۔ نئی پالیسی فریم ورک کی تشکیل جلد مکمل کرنے کی درخواست کی گئی تاکہ مبہمیت دور ہو اور بین الاقوامی تجارتی سہولت کاری مضبوط ہو کر وزیر اعظم کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
مفاہمتی مراسیم (MoUs) اور پروٹوکولز کے عملی نفاذ پر کمیٹی نے زور دیا کہ وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق نفاذی میکنزم مرتب کیے جائیں تاکہ معاہدات کا حقیقی فائدہ حاصل ہو۔ وزارتِ تجارت نے بتایا کہ بورڈ آف انویسٹمنٹ کو متعدد کمپنیوں کی فہرست ارسال کی گئی ہے تاکہ BOI براہ راست رابطہ کر کے فالو اپ کرے۔ کمیٹی نے وزارتِ تجارت، BOI اور TDAP کے درمیان مربوط کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم آہنگی کے فقدان سے نقل و حرکت یا خلاء پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے کہا کہ چینی زبان سمجھنے والے نمائندوں والے چیمبرز همکاری میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر چین سے متعلق معاہدات کے تناظر میں۔
برآمدی کونسلز کی بحالی اور مضبوطی پر بھی بات ہوئی؛ جن کونسلز کی تعداد بڑھا کر طے شدہ سطح تک پہنچائی گئی ہے اور TDAP کو سیکرٹریٹ کے طور پر فعال کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے اسٹیک ہولڈرز، خصوصاً بلوچستان کے چیمبرز کے ساتھ بامعنی مشاورت پر زور دیا کیونکہ بلوچستان چاول، آلو، کینو، بیج اور آم جیسی اہم برآمدات میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ شرکاء نے انفراسٹرکچر کی کمزوری، اہل عملے کی کمی، توانائی کے بلند اخراجات اور کول چین سہولیات کی عدم دستیابی جیسے مسائل اجاگر کیے جنہوں نے نمو کو محدود رکھا ہوا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ برآمدی روڈ میپس صرف شعبہ وار نہیں بلکہ رسد و فراہمی کے متقابِل مسائل کو بھی حل کریں اور غیر تعرفی رکاوٹوں سے ملکی پیداوار کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔
واپسی والی تنخواہوں (ریٹروسپیکٹو سیلریز) کے اجرا کے معاملے پر بجٹ اور انتظامی اختیار بورڈز کے پاس ہونے کی واضحگی دیتے ہوئے اس موضوع پر محدود گفتگو ہوئی اور کہا گیا کہ متعلقہ بورڈز اس سلسلے میں فیصلہ کریں گے۔
اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز (SOEs) کی کارکردگی، نجکاری کی موجودہ صورتحال اور احتسابی فریم ورک پر بھی سخت سوالات اٹھائے گئے۔ کمیٹی نے نوٹس لیا کہ بیشتر SOE بورڈز نجی شعبے کے نمائندوں کے زیرِ انتظام ہیں جبکہ مرکزی مانیٹرنگ یونٹ (CMU) وزارتِ خزانہ کے تحت نگرانی کا فریموَک فراہم کر رہا ہے۔ کمیٹی نے پرائیوٹائزیشن ڈویژن اور CMU کو آئندہ اجلاس میں مدعو کر کے نامزدگی کے عمل، کارکردگی کے جائزے اور نجکاری کے مراحل پر تفصیلی بریفنگ طلب کرنے کی ہدایت کی۔
اجلاس میں سینیٹر انوشہ رحمن کی صدارت میں سینیٹر عامر ولی الدین چشتی، سینیٹر راحت جمالی، سینیٹر سلیم مندوّی والا، سینیٹر احمد خان، سینیٹر سرمد علی کے علاوہ وزارتِ تجارت کے قائم مقام سیکرٹری و اضافی سیکرٹری اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
