سینیٹ کمیٹی کا پی ای سی اے نفاذ کا جائزہ

newsdesk
32 Min Read

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون (PECA) کے نفاذ کا جامع جائزہ لیا اور صوبائی سطح پر رجسٹر کیے گئے سینکڑوں مقدمات کو غیرقانونی قرار دے کر واپس لینے کی ہدایات جاری کیں، ساتھ ہی قانون کے غلط استعمال خصوصاً صحافیوں اور تنقیدی رائے پر خودسرانہ کریک ڈاؤن کے خلاف حفاظتی اقدامات تجویز کیے گئے۔

چیئرمین سینیٹر سید علی ظفر کی زیر صدارت اجلاس میں بتایا گیا کہ صوبائی حکام کی طرف سے PECA کے تحت درج 378 مقدمات غیرقانونی قرار دیے گئے ہیں اور انہیں فوری واپس لیا جائے۔ کمیٹی نے اس حکم کے نفاذ کے لیے ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ ہر مقدمے کا از سر نو جائزہ اور قانون کے مطابق کارروائی یقینی بنائی جائے۔ سینیٹر ظفر نے واضح کیا کہ کسی شہری کو غیرقانونی طور پر مقدمے کا سامنا نہیں ہونا چاہیے اور قانون کا اطلاق شفافیت اور انصاف کے دائرے میں رہ کر کیا جائے گا۔

اجلاس میں قانون کے بے جا اطلاق اور سنسرشپ کے خدشات پر بھی تاکید کی گئی۔ سینیٹر ظفر نے کہا کہ PECA کو صحافیوں یا عوام کے خلاف سنسرشپ کے آلے کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور "حکومتی پالیسیوں پر تنقید” کو جرم قرار دینے کی روش قابل قبول نہیں۔ دفترِ داخلہ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ اب تک درج شدہ مقدمات میں سے کوئی بھی ‘ریاست مخالف’ نوعیت کا ثابت نہیں ہوا، بلکہ زیادہ تر مقدمات نفرت انگیز جرائم، اشتعال انگیزی اور فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق ہیں۔

کمیٹی نے صحافیوں کے امور سے متعلق ایک رابطہ کمیٹی بنانے کی بھی سفارش کی جو صحافیوں کے مسائل اور شکایات کو نمٹائے گی۔ ایوانِ بالا کے کئی اراکین نے صحافیوں کے وقار اور جمہوریت میں ان کے کردار پر زور دیا۔ سینیٹر ظفر نے کہا کہ "صحافی جمہوریت کا چوتھا ستون ہیں” اور اخلاقی حدود میں رہ کر بہت سی معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے، بعض اوقات سوالات بھی ترتیب دے کر دئیے جاتے ہیں۔

تاریق علی ورک کے کیس پر بات چیت کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات اعجاز الطاف تارڑ نے بتایا کہ ملوث افسر کو معطل کر دیا گیا ہے اور راولپنڈی کے آر پی او نے پریس کلب میں صحافیوں سے ملاقات کر کے معاملہ خوش اسلوبی سے طے کرایا ہے۔ وزیر نے یقین دہانی کرائی کہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا ہے۔

کمیٹی نے PECA کے تحت درج مقدمات کی تفصیلات بھی سنی۔ وفاقی ادارے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) نے بتایا کہ ملک بھر میں مجموعی طور پر 1,214 کیسز درج کیے گئے جن میں سے 10 صحافیوں کے خلاف تھے، 611 مالی فراڈ کے معاملات تھے اور 320 ہراسانی کے کیسز تھے۔ اسلام آباد میں 19 مقدمات درج تھے جن میں سے کسی میں بھی صحافی شامل نہیں تھے اور ان میں اب تک گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ PECA میں حالیہ ترامیم کے بعد صوبے مقدمات درج نہیں کر سکتے اور ایسے مقدمات وفاقی دائرہ اختیار میں منتقل کیے جاتے ہیں۔

کمیٹی نے صوبوں میں ترامیم کے بعد غیر قانونی طور پر درج کیے گئے مقدمات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور رپورٹ کیا گیا کہ 372 مقدمات غیر قانونی حکام کی طرف سے درج کیے گئے تھے۔ چیئرمین نے ان مقدمات کے مستقبل کے بارے میں سوال اٹھایا اور کمیٹی نے تمام غیر قانونی مقدمات واپس لینے اور ان کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے ذیلی کمیٹی بنانے کی سفارش کی۔

سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے بڑے مالی فراڈ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ نو ارکانِ قومی اسمبلی کا نام استعمال کر کے فراڈ کیا گیا اور ان کے نام پر رقوم طلب کی گئیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ انہوں نے چار شکایات درج کرائیں مگر مناسب کاروائی نہیں ہوئی۔ NCCIA نے بتایا کہ سینیٹر صدیقی کے معاملے میں 13 لاکھ روپے برآمد کیے گئے، چار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ ایجنسی نے مزید بتایا کہ واٹس ایپ ہیکنگ کے مقدمات میں محض پانچ ماہ میں ایک کروڑ روپے برآمد کیے گئے ہیں۔

سینیٹر پرویز رشید نے بھی کہا کہ ایک سینیٹ خطاب کے بعد انہیں ہراساں اور دھمکیاں دی گئیں مگر ان کی شکایت پر مناسب فیصلہ نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے ایسے شکایات کے ازالے اور متاثرہ ارکان کے تحفظات پر توجہ دینے پر زور دیا۔

اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کابینہ نے سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے رولز کی منظوری دے دی ہے اور اسٹاف کی بھرتی کے اشتہارات جلد جاری کیے جائیں گے۔ سینیٹر سید وقار مہدی نے اس موقع پر ایک ریاستی ٹی وی اینکر کے بارے میں تشویش ظاہر کی جس نے سندھ کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز وی لاگ نشر کیا، اور ممبران نے متفقہ طور پر該 اینکر کے خلاف PECA کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کی۔

کمیٹی نے وفاقی حکومت کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں کیے گئے اشتہارات کے خرچ کی تفصیلات سامنے لانے کا مطالبہ کیا اور آئندہ اجلاس میں اس مد میں مکمل اعداد و شمار طلب کیے جانے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس میں موشن پکچر (ترمیمی) بل پر غور آئندہ سیشن تک ملتوی کر دیا گیا۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے