پاکستان کی صنعتی ترقی اور عالمی منڈی میں مسابقت کو مزید فروغ دینے کے لیے ماہرین نے پاور ویہلنگ اصلاحات اور اسمارٹ گرین گرڈز کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ پالیسی ڈائیلاگ کے دوران ماہرین اور صنعت کاروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بجلی کی منظم ترسیل، قابل اعتماد، صاف اور سستی بجلی کی فراہمی اور گرڈ جدیدیت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے توانائی کے شعبے میں بین الاقوامی تقاضوں اور یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکنزم (CBAM) جیسے تجارتی اُصولوں پر عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
یہ پالیسی ڈائیلاگ “پاور وہیلنگ اصلاحات اور گرین گرڈز برائے صنعتی مسابقت اور ترقی” کے عنوان سے منعقد کیا گیا، جس کا مشترکہ اہتمام سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (SDPI) اور اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (OICCI) نے کیا۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے او آئی سی سی آئی کے سیکریٹری جنرل عبدالعلیم نے کہا کہ پاکستان کا توانائی کا شعبہ ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے اور صنعتی ترقی کے لیے قابل بھروسہ، صاف اور کم لاگت بجلی کی فراہمی لازم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہترڈیزائن شدہ وہیلنگ اصلاحات اور گرین گرڈز پاکستان کو بین الاقوامی معیار خصوصاً CBAM کے تحت پیدا ہونے والی تجارتی ضروریات پر پورا اُترنے میں مدد دے سکتے ہیں، جس سے خاص طور پر ٹیکسٹائل سمیت برآمدی صنعتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے صنعتی شعبوں میں پائیداری کو فروغ دینے اور عمل میں کمی کے ساتھ ساتھ قومی گرڈ کی ڈی کاربنائزیشن پر زور دیا۔
ACCA گلوبل کی صدر آیلا مجید نے کہا کہ پاور سیکٹر اصلاحات اور صنعتی حکمت عملی کا باہمی ربط وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں پاور وہیلنگ کوئی نیا تصور نہیں، لیکن پاکستان میں اصلاحات ایسی ہونی چاہئیں جو اخراجات کی صحیح عکاسی کریں اور قابل تجدید توانائی کے انضمام کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مؤثر منصوبہ بندی اور مناسب نظام فیسز کے بغیر صنعتوں کو ناقابل برداشت ٹیرف اور مسلسل سپلائی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ انہوں نے گرڈ کی جدید کاری اور لچک میں سرمایہ کاری کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔
پینل مباحثے میں ریون انرجی کے سی ای او مجتبیٰ خان نے بتایا کہ پاکستان کا گرڈ فی الحال وولٹیج اور فریکوئنسی سمیت مختلف مسائل سے دوچار ہے جو قابل تجدید توانائی کے مکمل انضمام میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اس نظام کی کمزور کڑی ہیں اور شفاف و قابل اعتبار وہیلنگ انتظامات کو مشکل بناتی ہیں۔ ان کے مطابق اصل کامیابی صرف اصلاحات کے مربوط اطلاق سے ہی حاصل ہو سکتی ہے جو بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم میں یکساں صورت میں سامنے آئیں۔
کے-الیکٹرک کے سی ایف او، محمد عامر غزیانی نے کہا کہ پاکستان میں CTBCM کے موثر نفاذ کے لیے ایک جدید گرڈ نیٹ ورک لازمی ہے، جسے نجی شعبہ کی مدد سے مزید سرمایہ کاری، استعداد کاری اور برابری پر مبنی رسائی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں وسیع اصلاحات ناگزیر ہیں، جو صنعتی مسابقت کے ساتھ صارفین کے فلاح و تحفظ کو بھی یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ سپلائی چین میں کم کاربن تصدیق اور سماجی تحفظات کا نفاذ بھی موجودہ دور کے تقاضوں میں شامل ہے۔
آزاد سسٹم اینڈ مارکیٹ آپریٹر (ISMO) کے سینیئر ڈائریکٹر احمد قاضی نے اصلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ISMO کے مقاصد میں شفافیت، غیر جانبداری اور مارکیٹ میں اسٹیک ہولڈرز کا اعتماد شامل ہے تاکہ پاکستان بتدریج مقابلے پر مبنی بجلی مارکیٹ کی جانب بڑھ سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ اصلاحات میں پھنسے ہوئے اخراجات کا حل، طویل مدتی فائدہ، کم قیمت بجلی خریداری اور سرکاری سرمایہ کاری میں کمی کو بھی متوازن انداز میں سامنے لایا جانا چاہیے۔
ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمن ضیا نے ملک میں سولر پی وی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب تک نیٹ میٹرنگ کا حجم 8000 میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ اس رجحان کو قومی گرڈ کے ساتھ موثر انضمام کے لیے گرڈ کی لچک اور جدت میں سرمایہ کاری از حد ضروری ہے۔ انہوں نے صنعتی مسابقت کے لیے گرڈ اصلاحات کو برآمدات کی ضروریات اور CBAM اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی بھی سفارش کی۔
ایس ڈی پی آئی کے مرکز برائے پرائیویٹ سیکٹر انگیجمنٹ کے سربراہ انجینئر احد نذیر نے کہا کہ نئی پاور جنریشن میں سرمایہ کاری براہ راست معاشی نمو اور صنعتی مسابقت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئیندہ مارکیٹ اسٹرکچرز جیسے CTBCM سے کارکردگی میں اضافہ اور صاف توانائی کی منتقلی کا عمل تیز ہو سکتا ہے، تاہم اس میں احتیاط، پالیسی تسلسل، اسٹیک ہولڈرز میں ہم آہنگی اور جامع شمولیت لازم ہے، تاکہ نتائج پائیدار اور موثر ثابت ہوں۔
