اسلام آباد (این این آئی)موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کو مستقل طور پر آبی وسائل کی کمی کا سامنا رہے گا، مون سون کے دوران اوسط بارشوں کی توقع، خدشہ ہے کہ پاکستان کو گندم باہر سے بھی منگوانی پڑ سکتی ہے۔بین الاقوامی ادارے مرکز برائے مربوط ترقی پہاڑی علاقہ جات کے آبی وسائل اور موسمیاتی تبدیلی کے ماہر ڈاکٹر فیصل معین قمر کا کہنا ہے کہ ہمیں پانی استعمال کے طریقوں پر توجہ دینا ہوگی،جدید آبپاشی کو عام کرنا اور عام کسانوں کی پہنچ تک پہنچانا ہو گا۔ اس کے علاوہ ایسی فصلیں جن کیلئے زیادہ پانی کی ضرورت پڑتی ہے ان پر توجہ کم کر کے دوسری فصلوں کی جانب اپنی توجہ کرنا ہو گی جو کم پانی میں بھی اچھے نتائج فراہم کرتی ہیں۔پاکستان میں پانی کے حوالے سے مجاز ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق مئی کے آخر میں پاکستان کے ڈیموں میں پانی کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ارسا کے مطابق ڈیموں میں جتنا پانی آ رہا ہے، وہ تقریباً سارا یا اس سے کچھ کم زیادہ ملکی ضروریات کیلئے ڈیموں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ارسا کے مطابق 20 مئی کو مجموعی طور پر ڈیموں میں 0.344 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود تھا جبکہ 28 مئی کو یہ 0.115 ملین ایکڑ فٹ رہ گیا۔ آٹھ دن میں پاکستان کے ڈیموں میں پانی کی سطح میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ارسا کے مطابق اس وقت پانی کی قلت 40 سے 50 فیصد ہے جس کو مجموعی طور پر صوبوں پر تقسیم کیا جائیگا۔محکمہ موسمیات گلگت بلتستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرخ بشیر کے مطابق گلگت بلتستان اور گلیشیئرز والے علاقوں پر بادل ہیں جس کی وجہ سے گلیشیئر معمول سے کم پگھل رہے ہیں، بادل چھٹیں گے تو گرمی کی لہر پیداہونے پر گلیشیئر پگھلیں گے اور ممکنہ طور پر دریاؤں بالخصوص دریائے سندھ میں پانی کی صورتحال بہتر ہو گی۔ ماہر گلیشیئر ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق اس سال مئی میں اوسط سے کوئی آٹھ گنا کم بارشیں ہوئی ہیں۔ڈاکٹر فیصل معین قمر کے مطابق پاکستان میں پانی کا انحصار نومبر سے لے کر مارچ ہونے والی برفباری اور بارشوں پر ہوتا ہے، تربیلا ڈیم کا زیادہ تر انحصار گلیشیئرز جبکہ منگلا ڈیم کا انحصار بارشوں اور برفباری پر ہوتا ہے اور اب بارشیں اور برفباری دونوں کم ہوئی ہیں، مون سون میں مناسب اور اوسط بارشیں ہو جائیں تو شاید کسی حد تک پانی کا مسئلہ کم ہو سکے،خدشہ ہے کہ ربیع کی فصل کی طرح پاکستان میں خریف کی فصل پر بھی کوئی اچھے اثرات مرتب نہیں ہونگے۔
تبصرے