ڈاکٹر عائشہ خان کا کیس: تعلیمی آزادی اور ہراسانی کے مسائل

newsdesk
2 Min Read

سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اور آئی سی ڈاکٹر حافظہ عائشہ خان نے الزام عائد کیا ہے کہ ہیلتھ سروسز اکیڈمی کی وائس چانسلر نے انہیں بغیر پیشگی اطلاع برطرف کر دیا، ان کی پی ایچ ڈی فیلو شپ منسوخ کر دی گئی اور ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ ڈاکٹر عائشہ خان نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں وکیل محمد یونس اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں ذاتی دشمنی کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور سروس سے ہٹانے سے قبل کسی قسم کی انکوائری نہیں کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ان پر ایک حملے کے بعد انتظامیہ نے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے انتقامی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں ان کی ملازمت چلی گئی اور ان کی پی ایچ ڈی فیلوشپ بھی بند ہو گئی۔ ڈاکٹر عائشہ خان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی لیکن یہ ایف آئی آر حملے کی اطلاع دینے کے 12 دن بعد درج ہوئی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ معاملے میں تاخیر اور انصاف میں کوتاہی برتی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اپنا کیس صدر و چانسلر کے سامنے سروس اپیل کے طور پر پیش کر دیا ہے جبکہ فوسپا کے سامنے بھی ہراسانی کی شکایت درج کروا دی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کی حصول کیلئے کوشاں ہیں، اور یہ ان کی جدوجہد آئین کے مطابق مناسب طریقہ کار، وقار اور مساوات کیلئے ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی خاتون اسکالر کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی رپورٹ کرنے پر اپنا کیریئر قربان نہیں کرنا چاہئے۔

انہوں نے اس واقعے کو وائس چانسلر کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ تعلیمی آزادی، ملازمت کی جگہ پر تحفظ اور آئینی حقوق کے بارے میں سنجیدہ سوالات پیدا کرتا ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے