وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال کی زیر صدارت وزارت صحت کا ایک اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں جارى منصوبوں کی پیش رفت، درپیش چیلنجز اور صحت کے نظام کی بہتری کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔ وزیر صحت نے ہدایت کی کہ وزارت صحت کے تمام جاری منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر بروقت مکمل کیا جائے کیونکہ ان کے اثرات براہ راست عوامی زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔
اجلاس میں فیڈرل سیکریٹری ہیلتھ، ایڈیشنل سیکریٹری ہیلتھ، ڈی جی ہیلتھ اور دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ وزیر صحت نے کہا کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور آبادی میں تیزی سے اضافہ قومی ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے، اس لئے ایسی مؤثر پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے جن سے آبادی کی شرح میں کمی لائی جا سکے۔
مصطفی کمال نے کہا کہ اصل ہدف بیماریوں کا علاج نہیں بلکہ انہیں ہونے سے روکنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کا رش اس قدر ہے جیسے کسی سیاسی جلسے کے بعد لوگ جمع ہیں، جبکہ پاکستان میں 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کے استعمال سے پھیلتی ہیں، اس لیے احتیاطی تدابیر کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ وزارت صحت اپنی پالیسیوں میں روک تھام پر خصوصی توجہ دے رہی ہے تاکہ لوگوں کو بیماریوں سے پہلے ہی محفوظ رکھا جا سکے۔
وزیر صحت نے مزید کہا کہ بچوں کو بارہ بڑی بیماریوں سے بچانے کے لیے رُوٹین امیونائزیشن کو مضبوط بنانے کی ہدایات دی گئی ہیں جبکہ پولیو کے خاتمے کیلئے ویکسینیشن کے نظام پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ مصطفی کمال کے مطابق پولیو اب صرف پاکستان اور افغانستان میں باقی ہے، اس کے مکمل خاتمے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔
اجلاس میں بنیادی مراکز صحت کو مضبوط بنانے اور ریفرل سسٹم کے مؤثر نفاذ پر بھی زور دیا گیا۔ ٹیلی میڈیسن منصوبے کے تحت ڈاکٹرز اور ادویات عوام کی دہلیز تک پہنچانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہیلتھ کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم کے اجراء کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کی شکایات کا فوری ازالہ ہو سکے۔
وزیر صحت نے ہدایت کی کہ ہسپتالوں میں طبی سہولیات اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں اور محدود وسائل میں عوام کو معیاری صحت سہولیات کی فراہمی ہر صورت یقینی بنائی جائے۔
