پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کی راہیں اور مشکلات

newsdesk
5 Min Read

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں برقی گاڑیوں (ای وی) کو فروغ دینے کے لیے مقامی سطح پر پالیسی سازی، فنی تیاری اور انفراسٹرکچر کی بہتری ناگزیر ہے۔ اگرچہ حکومت نے نئی ای وی پالیسیوں میں متعدد مراعات فراہم کی ہیں، مگر محدود خریداری کی استطاعت، گرڈ کی عدم تیاری اور مرمت و سروس سہولیات کی کمی اس شعبے کی ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں "پاکستان میں کم کاربن سفری امکانات: ای وی کا مستقبل” کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ای وی ٹیکنالوجی سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی اور ملک کے دیرپا ترقیاتی اور موسمیاتی اہداف کے حصول میں مدد لی جا سکتی ہے، مگر اس کے لیے مربوط پالیسیوں اور تکنیکی آمادگی کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی لازمی ہے۔

انجینئر عاصم ایاز، جنرل منیجر پالیسی، انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ، نے بتایا کہ 2019 سے وفاقی سطح پر ای وی پالیسی پر کام جاری ہے۔ حکومت نے ای وی کی درآمد پر صرف ایک فیصد ڈیوٹی، سیلز ٹیکس میں چھوٹ اور ای وی بائیک تقسیم اسکیم جیسے اقدامات کیے ہیں تاکہ مانگ میں اضافہ ہو۔ تاہم، ای وی کی عوامی سطح پر قبولیت اب بھی محدود ہے۔ انہوں نے تین بڑی رکاوٹوں کی نشاندہی کی: برقی دو پہیوں کی قیمت پٹرول گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، بیٹری سواپنگ سہولیات کی کمی اور چارجنگ انفراسٹرکچر کا فقدان۔

ڈائریکٹر پلاننگ پنجاب ٹرانسپورٹ اتھارٹی سلیمان مجید نے بتایا کہ پنجاب میں 89 فیصد رجسٹرڈ گاڑیاں دو پہیوں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ترجیح ہے کہ اس رجحان کو الیکٹرک ماس ٹرانزٹ کے ذریعے بدل دیا جائے، جیسا کہ اورنج لائن منصوبہ ہے جس سے روزانہ دو لاکھ مسافر استفادہ کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں نیلی اور جامنی لائن منصوبوں کے تحت 500 الیکٹرک بسوں کی خریداری اور پنجاب کلین ایئر پروگرام کے تحت مزید 400 بسیں خریدی جارہی ہیں، تاکہ فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی لائی جا سکے۔

بلوچستان کے حوالے سے ڈاکٹر فیصل خان نے بتایا کہ صوبے کی جغرافیائی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر ماس ٹرانزٹ ممکن نہیں۔ اس لیے کوئٹہ کے مرکزی علاقے میں پی پی پی ماڈل کے تحت ای وی ٹرانزٹ متعارف کرایا جارہا ہے، جہاں نجی سرمایہ کار بغیر کسی سرکاری سبسڈی کے سروس چلائیں گے اور حکومت چارجنگ اسٹیشنز اور پارکنگ کے لیے جگہ فراہم کرے گی۔

مباحثے میں ڈاکٹر عثمان قادر نے مقامی سطح پر تیاری اور تحقیق و ترقی کے بغیر برقی گاڑیوں کی پائیداری پر سوال اٹھایا اور کہا کہ جب ملک میں صرف 10 فیصد گھرانوں کے پاس ذاتی گاڑیاں ہیں، تو اس صورت میں ای وی سبسڈی کی افادیت پر بھی غور ضروری ہے۔ ڈاکٹر عدیل خان نے ای وی چارجنگ سے بجلی کے نظام میں آنے والے ممکنہ دباؤ پر خدشات کا اظہار کیا۔ مہروش فاطمہ نے ڈسکوز میں ای وی انضمام کے حوالے سے معیاری عملی رہنمائی (ایس او پیز) کی کمی کی نشاندہی کی اور اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کیا کہ اسلام آباد میں چارجنگ اسٹیشنز سے وولٹیج میں اتار چڑھاؤ آیا۔ افضال خان نے مرمت اور سروس سہولیات کی کمی کو اجاگر کیا، جبکہ اسد محمود نے پالیسی سازوں کو ای وی تک محدود رہنے کے بجائے ہائیڈروجن اور متبادل بیٹری ٹیکنالوجیز پر بھی غور کرنے کا مشورہ دیا۔

مذاکرے کے اختتام پر چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمان نے کہا کہ مراعات کی تشکیل میں عام صارف کی ضروریات اور مسائل کو ترجیح دینی چاہیے۔ انہوں نے اس معاملے پر ہمہ جہت اور مربوط حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیا، تاکہ تکنیکی، مالی اور آپریشنل مسائل کا بیک وقت حل تلاش کیا جا سکے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے