اسلام آباد (ندیم تنولی) نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلیٹیشن میڈیسن (نِرم) سے متعلق پارلیمانی سب کمیٹی کی اچانک تحلیل نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت میں شدید تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ متعدد ارکانِ پارلیمنٹ نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ کسی طاقتور حلقے نے کمیٹی پر دباؤ ڈال کر تحقیقات کو ختم کروایا، جس سے شفافیت اور پارلیمانی نگرانی پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔ ارکان نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو حقائق کو چھپانے کی کوشش قرار دیا۔
ڈاکٹر شازیہ صوبیہ اسلم سومرو اور زہرہ وددود فاطمی نے اس فیصلے کو پارلیمنٹ کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ نِرم کی چھان بین کے لیے تشکیل دی گئی یہ سب کمیٹی اپنا کام شروع ہی کر رہی تھی کہ اُسے جانبداری کے الزام کے تحت تحلیل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر شازیہ کے مطابق کمیٹی نے صرف ایک اجلاس کیا تھا جس میں گواہوں کے بیانات سنے گئے اور ثبوت مانگے گئے۔ اُن کا اصرار تھا کہ تحقیقات کے نتائج محض الزامات یا قیاس آرائیوں پر نہیں بلکہ واضح شواہد پر مبنی ہونے چاہئیں۔ ان کے بقول کمیٹی کی فوری تحلیل نے شبہات کو جنم دیا کہ کسی کو تحقیقات کے نتیجے میں حقائق سامنے آنے کا خوف تھا۔
مزید برآں، ارکان نے بتایا کہ انہیں شدید دباؤ اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ زہرہ فاطمی کے مطابق انہیں ایسے فون کالز موصول ہوئیں جن میں ان کی کمیٹی میں شمولیت پر سوالات اٹھائے گئے، جبکہ ڈاکٹر شازیہ نے بھی دعویٰ کیا کہ کمیٹی کو جانبدار قرار دلوانے کے لیے باقاعدہ منظم دباؤ’ ڈالا گیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ نِرم کے معاملات کی مزید چھان بین غیر جانب دارانہ طور پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سپرد کی جائے۔
کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے اس پر ارکان کے تحفظات کو تسلیم کرتے ہوئے معذرت کی اور کہا کہ اگر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی تو وہ معذرت خواہ ہیں۔ تاہم انہوں نے اپیل کی کہ اس معاملے پر عوام میں زیادہ شور نہ مچایا جائے، کیونکہ اس سے ادارے کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسے حساس معاملات پر تفصیلی اور سنجیدہ بحث ایک اِن کیمرا (بند کمرہ) اجلاس میں کی جائے تاکہ کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
یہ تنازعہ صرف ایک ادارے کی چھان بین تک محدود نہیں بلکہ اس سے یہ تاثر بھی ابھرا ہے کہ ملک میں احتساب کے عمل اور طاقتور حلقوں کی مداخلت کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ کمیٹی نے طے کیا ہے کہ آئندہ اس معاملے پر بند کمرہ اجلاس میں غور کیا جائے گا جبکہ ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کی تجویز بدستور زیر بحث ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ نے واضح کیا کہ وہ پارلیمانی نگرانی کے اختیارات کا ہر صورت میں دفاع کریں گے اور شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

