بریسٹ فیڈنگ قوانین اور بچوں کی صحت کا تحفظ

newsdesk
7 Min Read

اسلام آباد میں ایک اہم پارلیمانی فورم کے دوران پاکستان کی خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری، سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ نے ماں کے دودھ پلانے اور غذائیت بخش پالیسیاں مزید مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے۔ اس اعلامیہ کے ذریعے بچوں کی صحت کے تحفظ اور ماؤں کو بااختیار بنانے کے لیے پُرعزم اقدامات کرنے اور ماں کے دودھ پلانے کے عمل میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

پارلیمنٹری ایڈووکیسی فورم برائے بریسٹ فیڈنگ کے اس اجلاس کا انعقاد یونیسیف اور ویمن پارلیمنٹری کاکس نے مل کر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز میں کیا جہاں یہ اعلامیہ منظور ہوا۔ اعلامیے میں ماؤں کے دودھ پلانے کو صحت اور ترقی کے لیے قومی مفاد میں سرمایہ کاری قرار دیتے ہوئے اس کی ترویج اور حفاظت کے لیے مؤثر قانون سازی اور قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔

خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری نے ایم این اے منتخب ہوکر اس اعلامیے پر دستخط کیے اور ماں کے دودھ اور ماؤں کی غذائیت کو قومی ترجیح دینے کے لیے بھرپور سیاسی حمایت ظاہر کی۔ اعلامیہ میں فارمولہ دودھ کی مارکیٹنگ کے سخت ضوابط، صحت کے نظام میں بریسٹ فیڈنگ کا فروغ، کام کرنے والی ماؤں کے لیے بہتر سہولتیں اور مضر سماجی رویوں کے خاتمے کے لیے کمیونٹی کو شامل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔

اس موقع پر سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹیرینز سے کہا کہ فارمولہ دودھ کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے دائرہ اختیار سے نہ نکالا جائے کیونکہ یہ دوا ہے، خوراک نہیں، اور اس پر قانونی پابندی ضروری ہے۔ انہوں نے سندھ میں 2023 کے بریسٹ فیڈنگ اور بچے کی غذائیت ایکٹ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس قانون سازی کے دوران حکومت کو متعدد دباؤ برداشت کرنا پڑا، لیکن وہ ثابت قدم رہی۔ انہوں نے سندھ میں لکیٹیشن کاؤنسلر اور تھراپسٹ بھرتی کرنے، حاملہ خواتین کو غذائی سپلیمنٹس فراہم کرنے اور بریسٹ فیڈنگ کے فروغ کی پالیسیوں کا بھی اعلان کیا۔ ڈاکٹر پیچوہو کے مطابق ماؤں کے دودھ کی کمی دل کے دورے اور دیگر بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

یونیسیف کی نمائندہ پرنیل آئرن سائیڈ نے وفاق اور صوبوں کے قانون سازوں سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ کے قانون کو پورے ملک میں اپنانے اور ماؤں کے دودھ پلا نے کو قومی ترجیح دینے کے لیے اقدامات کریں۔ یونیسیف پاکستان کے نیوٹریشن چیف انتنیہ گِرما میناس نے اس فورم کو اہم سنگ میل قرار دیا اور کہا کہ خاتون اول کی شرکت اس موضوع کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر جمال رضا نے شواہد پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں بریسٹ فیڈنگ کی کم شرح کی وجہ سے سالانہ تقریباً 2.8 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوتا ہے جبکہ 88 کروڑ ڈالر سے زائد صرف فارمولہ دودھ پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں مکمل بریسٹ فیڈنگ کی شرح صرف 48.4 فیصد ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کا ہدف 60 فیصد ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ فارمولہ دودھ کے استعمال سے بچوں کو انفیکشن، غذائی کمی اور موٹاپا تک لاحق ہو سکتے ہیں، جبکہ اگر مکمل بریسٹ فیڈنگ کی شرح 70 فیصد تک پہنچ جائے تو ہر سال 34 ہزار بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے اور 2.8 ملین ڈائریا کیسز روک کر 5 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔

ویمن پارلیمنٹری کاکس کی سیکریٹری ڈاکٹر شاہدہ رحمانی نے بچوں کی شرح اموات کم کرنے اور ماؤں کی صحت بہتر بنانے کے لیے بریسٹ فیڈنگ کی اہمیت بیان کی۔ پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر مسعود صادق نے زچگی کی چھٹی چھ ماہ کرنے، فارمولہ دودھ کی سوشل میڈیا پر تشہیر پر پابندی اور سندھ کے طرز پر وفاقی سطح پر قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اسپتالوں میں کینگرو کیئر کے فروغ کی بھی سفارش کی تاکہ ماؤں اور بچوں کا تعلق مضبوط ہو اور نوزائیدہ کی صحت میں بہتری آئے۔

یونیسیف کی جینڈر اسپیشلسٹ فہمیدہ خان نے پارلیمنٹیرینز پر زور دیا کہ وہ بریسٹ فیڈنگ کو زندگی بچانے والا عمل سمجھ کر مل کر اس کی ترویج کریں، کیونکہ اس سے ملک میں غذائی کمی اور بچوں کی نشوونما میں کمی جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یونیسیف کے ماہرین صبا شجاع اور ڈاکٹر مظہر حسین نے پاکستان میں بریسٹ فیڈنگ کی کم شرح اور فارمولہ دودھ کے منفی اثرات کے طبی اور معاشی پہلوؤں پر ایک تفصیلی پریزنٹیشن بھی دی۔

فورم کے اختتام پر منظور شدہ مشترکہ اعلامیہ میں قانون سازوں نے ماں کے دودھ کو فروغ دینے والے قوانین، صحت کے نظام میں اس کے فروغ کی شمولیت اور ماں و بچے کی غذائیت کے لیے مستقل فنڈنگ یقینی بنانے کے وعدے کیے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم سمیت مختلف جماعتوں کے ارکان—جن میں اکثریت خواتین پر مشتمل تھی—نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر بچوں کو بریسٹ فیڈنگ کے متبادل کی تشہیر کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے مل کر کام کریں گے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے