ملتان اور سیالکوٹ کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں دو ہاؤس آفیسرز کو نجی میڈیکل اسٹورز سے دوائیں تجویز کرنے پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا، جس پر نوجوان ڈاکٹروں اور طبی تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج سامنے آیا ہے۔ یہ واقعہ پاکستان میں صحت کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور اسپتالوں میں ادویات کی قلت کے مسئلے کو ایک بار پھر اجاگر کر رہا ہے۔
ملتان کے نشتر اسپتال میں ڈاکٹر رقیہ مهنور قریشی کو اس الزام پر معطل کردیا گیا کہ انہوں نے وارڈ نمبر 4 میں زیر علاج ایک مریض کو اسپتال کے باہر سے دوا تجویز کی۔ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے اس حوالے سے باقاعدہ معطلی کا نوٹس جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر کا یہ اقدام اسپتال کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور اس پر باضابطہ تحقیقات ہوں گی۔ اس نوٹس کو پنجاب بھر کے اعلیٰ صحت حکام کو بھی ارسال کردیا گیا۔
ادھر سیالکوٹ کے علامہ اقبال میموریل ٹیچنگ اسپتال میں جنرل سرجری کے ہاؤس آفیسر ڈاکٹر محمد صغیر کو بھی انتظامی بنیادوں پر برخاست کیا گیا۔ ان کے خلاف الزام تھا کہ انہوں نے جراحی ایمرجنسی یونٹ میں ڈیوٹی کے دوران نجی میڈیکل اسٹور سے دوائیں تجویز کیں، جو کہ اسپتال کی پالیسی کے منافی ہے۔
ان اقدامات پر نوجوان ڈاکٹروں اور ان کی نمائندہ تنظیموں کی طرف سے بھرپور مذمت کی جا رہی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز فیڈریشن کے کنوینر ڈاکٹر حسن بلوچ نے موقف اختیار کیا کہ ہاؤس آفیسرز انتہائی محدود اختیارات کے ساتھ سینئر ڈاکٹروں کی نگرانی میں کام کرتے ہیں، اور اگر کسی اسپتال میں دوا دستیاب نہ ہو تو ایک ڈاکٹر کو مریض کو تکلیف میں چھوڑ دینا چاہیے یا اس کی جان بچانے کے لئے باہر سے دوا تجویز کرنی چاہیے؟ انہوں نے انتظامیہ پر الزام لگایا کہ وہ اپنی نااہلی اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جونیئر ڈاکٹروں کو قربانی کا بکرا بنا رہی ہے۔
مختلف سرکاری اسپتالوں جیسے جناح اسپتال لاہور اور نشتر ملتان کے ڈاکٹروں نے بھی اس کارروائی پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ڈاکٹروں نے سوال اٹھایا کہ جب سرکاری فارمیسیز مطلوبہ ادویات فراہم کرنے سے قاصر ہوں تو کسی مریض کی جان بچانے کے لئے باہر سے دوا تجویز کرنے پر سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی منصفانہ تحقیقات کی جائیں اور نوجوان ڈاکٹروں کو ایسے اقدامات سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
ہاؤس آفیسرز عموماً نئے گریجویٹ ڈاکٹرز ہوتے ہیں جو اپنی لازمی تربیتی مدت پوری کر رہے ہوتے ہیں اور اسپتالوں میں طبی خدمات کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اُن کی ذمہ داریوں میں روزمرہ مریضوں کا علاج اور سینئر ڈاکٹروں کی معاونت شامل ہے۔ حکومتی پالیسی کے مطابق وہ پی ایم ڈی سی کی ہدایات اور اسپتال کے اصولوں کے پابند ہیں، مگر اصل طبی وسائل کی فراہمی انہی اسپتال انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
اس صورت حال نے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی کے جاری مسئلہ کو بھی نمایاں کردیا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں لازمی ادویات کی سرکاری فہرست موجود ہے، لیکن مختلف تحقیقات کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں اِن ادویات کی دستیابی غیر یقینی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے اکثر مجبور ہوکر ڈاکٹروں کو باہر سے دوائیں تجویز کرنی پڑتی ہیں، حالانکہ یہ پالیسی کے خلاف ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ غیر سائنسی اور بے قاعدہ ادویات کے استعمال، فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے اثرات، اور ضعیف پالیسیوں کی وجہ سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور مقامی رپورٹس بھی پاکستان کے صحت نظام کو ان بنیادی مسائل کے باعث غیر محفوظ قرار دیتی رہی ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، جو پہلے ہی سرکاری اسپتالوں میں کام کے حالات اور انتظامی غفلت کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہے، ایک بار پھر اس مسئلے پر متحرک نظر آ رہی ہے۔ ڈاکٹرز نہ صرف معطل شدہ ہاؤس آفیسرز کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ شفاف تحقیقات، ادویات کی وافر فراہمی اور پالیسیوں پر حقیقی عملدرآمد کے لیے اصلاحات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔
ڈاکٹر رقیہ قریشی اور ڈاکٹر محمد صغیر کے خلاف جاری تحقیقات کے نتائج ہی یہ طے کریں گے کہ مستقبل میں جونیئر ڈاکٹروں کے لئے اسپتالوں میں پریکٹس کے اصول کس طرح وضع ہوں گے، اور اس سے پاکستان کے صحت کے نظام میں شفافیت اور بہتری کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
