کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی اور بھارتی اقدامات

newsdesk
5 Min Read

بھارت کے یکطرفہ اقدامات کی ناکامی، کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کسی بھی شکل میں نقصان دہ قرار

اسلام آباد میں کشمیری حق خود ارادیت کے حوالے سے منعقدہ ایک اہم نشست میں ماہرین اور سابق سفارتکاروں نے کہا ہے کہ اگر بھارت، مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کسی بھی صورت میں بحال کرتا ہے، تو یہ اس کے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور متنازع اقدامات کی ناکامی کا اعتراف ہوگا۔ ماہرین نے زور دیا کہ اس ممکنہ تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو ایک واضح اور مضبوط حکمت عملی اپنانی چاہیے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔

ان خیالات کا اظہار ادارہ پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کی کشمیر ورکنگ گروپ کے زیر اہتمام "مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی: پیش رفت یا فریبِ سیاست؟” کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس سے آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمان، وائس چیئرمین سفیر ریٹائرڈ سید ابرار حسین، ماہر بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر شیخ ولید رسول، سیکرٹری جنرل فارزانہ یعقوب، بریگیڈیئر (ر) خورشید خان، بریگیڈیئر (ر) راجہ شوزیب سمیت سکیورٹی اور قانونی ماہرین نے خطاب کیا۔

اس موقع پر کلیدی خطاب میں ڈاکٹر شیخ ولید رسول نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ 1947 سے ہی عملی اور قانونی کنٹرول کے درمیان جدوجہد سے عبارت ہے۔ ان کے مطابق بھارتی فوجی قبضے کے بعد بھارت نے قانونی اور انتظامی سطح پر متعدد گمراہ کن اقدامات کیے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو انہوں نے بھارتی آزادی ایکٹ، اقوام متحدہ کی قراردادوں، دوطرفہ معاہدوں اور آئین میں فراہم کردہ آرٹیکل 370 کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ کشمیر کے قانونی، سیاسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی آواز عالمی فورمز پر زیادہ مؤثر انداز میں اُٹھائے۔

بریگیڈیئر (ر) خورشید خان نے اس تاریخی تناظر میں کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، جنہیں عالمی سطح پر مناسب توجہ نہیں مل رہی۔ تاہم حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کو عالمی منظرنامے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ان کے بقول، اب عالمی طاقتیں یہ تسلیم کرنے لگی ہیں کہ کشمیر پر تنازعہ خطے میں امن کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کو حال ہی میں منظور شدہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد کو بنیاد بنا کر اپنے سفارتی موقف کو مؤثر بنانا چاہیے۔

اجلاس میں بریگیڈیئر (ر) راجہ شوزیب نے کہا کہ بھارت فلسطین کے ماڈل کو اپنانے کی کوشش کر سکتا ہے مگر حالیہ تصادم کے بعد اس کے تسلط کے دعوے کمزور پڑ گئے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان نئی صورتحال اور عالمی رائے عامہ کی تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرے اور متاثرین کے بیانات ڈاکومنٹریز کی صورت میں پیش کرے، تاکہ بھارتی مظالم بے نقاب ہوں۔

دفاعی پہلو پر بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے کہا کہ پاکستان نے حالیہ بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دے کر اپنے دفاعی طاقت کا دوبارہ اظہار کیا ہے، اور اگر بھارت اس صورتحال کو معمول سمجھ بیٹھا تو اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

سابق سفیر ابرار حسین نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے اقدامات آئینی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ زعم کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے کشمیری بھارت کو تسلیم کر لیں گے، غلط ثابت ہوا۔ نئی پیشرفت نے ایک بار پھر کشمیر کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

اختتامی گفتگو میں خالد رحمان نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد سفارتی اور اسٹریٹیجک سطح پر بھارت کو تنہائی کا سامنا ہے، اور عالمی و علاقائی صورتحال میں تیز تر تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا بھارت پرانی حیثیت بحال کرے گا یا مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گا، لیکن موجودہ حالات پاکستان اور کشمیریوں کے لیے ایک اخلاقی اور سفارتی موقع ہیں، جسے بھرپور انداز میں استعمال کرنا چاہیے اور حق خود ارادیت کے مطالبے کو مزید تقویت دینا چاہیے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے