پاکستان میں لاکھوں بچے سیسے کی زہر خورانی کا شکار، فوری اقدامات کی ضرورت
پاکستان میں بچوں میں سیسے کی زہر خورانی کے سنگین انکشافات سامنے آئے ہیں، جس پر ماہرین صحت نے فوری اور متحدہ اقدامات کی اپیل کی ہے۔ وزارت قومی صحت، یونیسف اور ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے اشتراک سے جاری کردہ ایک تازہ تحقیق کے مطابق ملک میں تقریباً چار کروڑ بچے ایسے ہیں جن کے خون میں سیسے کی مقدار عالمی ادارہ صحت اور سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول کی طے شدہ محفوظ حد سے زیادہ ہے۔
تحقیق کے مطابق سیسے کی زہر خورانی ایک خاموش مگر خطرناک صحت کا بحران بنتا جا رہا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ برائے صحت میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن کے اندازوں کے مطابق سیسے سے متاثرہ افراد کی تعداد دنیا بھر میں کروڑوں تک جا پہنچی ہے، جس سے ہر سال لاکھوں اموات اور معذوری کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں کم عمر بچے، حاملہ خواتین اور صنعتی کارکن سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
سیسے کی زہر خورانی کے اسباب میں سیسے والے پینٹ اور بیٹریاں، پائپوں سے آنے والا آلودہ پانی، آلودہ مٹی اور گھریلو گردوغبار، کھلونے، سرمہ، مصالحہ جات خاص طور پر ہلدی اور روایتی ادویات، اور غیر رسمی صنعتی آلودگی شامل ہیں۔
خون میں سیسے کی زیادتی بچوں میں آئرن کی کمی، ذہنی صلاحیتوں کی کمی اور نشوونما میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بچوں کی صحت بلکہ قوم کے مستقبل کے لیے بھی خطرے کی علامت بن چکا ہے۔
"پاکستان میں بچوں میں سیسے کے زہر سے نجات: پالیسی اقدامات کے لیے شواہد” کے عنوان سے جاری کردہ اس منصوبے کے تحت پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد کے خطرے سے دوچار علاقوں میں 2135 بچوں کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔ نتائج نے اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
ماہرین صحت اور تحقیقاتی اداروں نے وزارت صحت، ماحولیاتی تحفظ کے اداروں، صوبائی صحت محکموں، وفاقی و صوبائی فوڈ اتھارٹیز، صنعتی شعبے اور تعلیمی حلقوں پر زور دیا ہے کہ وہ باہمی اشتراک سے سیسے سے لاحق خطرات کا سدباب کریں اور بچوں کی صحت کو محفوظ بنائیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فی الفور اقدامات نہ کیے گئے تو سیسے کی زہر خورانی لاکھوں بچوں کی زندگیوں کے لیے بدستور خطرہ بنی رہے گی۔
