پاکستان میں توانائی کی منتقلی کیلئے گرین ہائیڈروجن انفراسٹرکچر

newsdesk
3 Min Read

نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے تحت امریکی-پاکستان مرکز برائے ایڈوانس اسٹڈیز ان انرجی (یو ایس پی سی اے ایس-ای) میں ایک اہم گول میز مذاکرہ منعقد ہوا، جس کا مقصد پاکستان میں ہائیڈروجن توانائی کے بنیادی ڈھانچے اور صاف توانائی کے مستقبل میں اس کے کردار پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ اس موقع پر “ڈیزل کی جگہ ہائیڈروجن کے انفراسٹرکچر کے ٹیکنو-اکنامک تجزیے” پر مبنی ایک جامع رپورٹ پیش کی گئی، جسے پروفیسر ڈاکٹر نسیم اقبال اور ڈاکٹر مصطفٰی انور نے ترتیب دیا ہے۔

مذاکرے کی افتتاحی تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر مجید علی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ملک کو توانائی کے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے، اور ایسے میں متبادل ایندھنوں کے بارے میں بروقت پالیسی مکالمے انتہائی ضروری ہیں۔ ڈاکٹر رابعہ لیاقت نے تعلیمی حوالوں سے کیے جانے والے تحقیقاتی منصوبوں پر مختصر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ایسے شواہد پر مبنی مطالعات پاکستان کی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

کانفرنس میں رپورٹ کے اہم نتائج عائشہ مقصود نے پیش کیے، جبکہ مباحثے کی نظامت ڈاکٹر مصطفیٰ انور نے کی۔ اس مذاکرے میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، بشمول حکومت، اکیڈیمیا، صنعت اور ترقیاتی اداروں کے نمائندگان شریک ہوئے۔ شرکا نے اتفاق کیا کہ ہائیڈروجن نہ صرف نقل و حمل بلکہ صنعتی شعبے کو بھی کاربن سے پاک بنانے میں بڑی پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں این ایچ-5 پر پائلٹ پراجیکٹس، مقامی تکنیکی صلاحیت، اور قومی سطح پر پالیسی تیاری کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

ماہرین نے اس بات کی اہمیت کو اجاگر کیا کہ پاکستان کو عالمی ہائیڈروجن معیشت میں اپنی جگہ بنانے کے لیے شعبہ جاتی تعاون، مضبوط ضابطہ جاتی ڈھانچہ اور سرمایہ کاری کی تیاری کو ترجیح دینی ہوگی۔ اس کے لیے قومی سطح پر ایک مجموعی ہائیڈروجن حکمت عملی بنانے کی ضرورت بھی محسوس کی گئی۔

یہ تقریب ڈاکٹر مجید علی، ڈاکٹر رابعہ لیاقت، ڈاکٹر نادیہ شہزاد، ڈاکٹر مصطفیٰ انور، ڈاکٹر کاشف عمران اور تحقیقی ایسوسی ایٹس کی کوششوں سے منعقد ہوئی، جبکہ میزبانی کے فرائض سحر بخاری نے سر انجام دیے۔ پروگرام کے اختتام پر شرکا نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کو صاف، مستحکم اور جدید توانائی کی جانب بڑھانے کے لیے اس طرح کے مکالمے مستقبل میں بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہیں گے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے