پاکستان میں فارمیسی کے شعبے کی نگرانی میں سنگین خامیاں، پارلیمانی انکوائری میں انکشافات
ندیم تنولی
قومی اسمبلی کی ایک حالیہ انکوائری نے پاکستان کے فارمیسی سیکٹر میں نگرانی اور قوانین پر عملدرآمد میں سنگین کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی صحت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کوآرڈینیشن پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ ملک بھر میں غیر رجسٹرڈ دواخانے، غیرمحفوظ ادویات کی ذخیرہ اندوزی اور جعلی ادویات کی بڑھتی ہوئی دستیابی سامنے آئی ہے۔
انکوائری کے دوران وزارت نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی بیشتر فارمیسیاں درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے والے ضروری انتظامات اور ریفریجریشن سے محروم ہیں، جو حساس ادویات کے مؤثر رہنے کیلئے لازمی ہے۔ مزید انکشاف ہوا کہ بہت سی فارمیسیاں نہ صرف بغیر لائسنس کام کر رہی ہیں بلکہ ان میں سند یافتہ فارماسسٹ بھی تعینات نہیں ہوتے۔ کئی جگہوں پر اہم ادویات کو براہ راست دھوپ میں یا غیر متعلقہ اشیاء کے ساتھ رکھا جاتا ہے، جو صحت و سیفٹی کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور صارفین کے اعتماد کو متزلزل کر رہی ہے۔
وفاقی حکومت نے اس مسئلے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈالنے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ فارمیسی کی نگرانی بنیادی طور پر ڈرگز ایکٹ 1976 کے سیکشن 6 کے تحت صوبائی دائرہ کار میں آتی ہے۔ تاہم ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کی جانب سے دی گئی ہدایات اور کولڈ چین مینجمنٹ کے لیے جاری رہنما اصول اپنی جگہ موثر نفاذ سے محروم ہیں، خاص طور پر ان صوبوں میں جہاں صحت کے انتظامات کمزور ہیں۔
DRAP نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس نے ادویات کے نرخوں میں کمی سمیت کئی اصلاحات متعارف کروائیں، جیسے 2018 میں 89 ادویات کی قیمتوں میں کمی اور کورونا وبا کے دوران ریمڈیسیور کی قیمت کو کم کرنا وغیرہ۔ تاہم، ان اقدامات کے باوجود گراؤنڈ پر نگرانی یا قانون کی بالادستی میں کوئی نمایاں بہتری نظر نہیں آئی۔ فارمیسی سروسز اینڈ ڈرگ کنٹرول ونگ کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے 2024 کے دوران ملک بھر میں 4402 معائنوں میں صرف 45 فارمیسی لائسنس معطل یا منسوخ ہوئے۔
اسی مدت میں کل 230 دوا کے نمونے لیے گئے، جن میں سے صرف 27 غیر معیاری یا جعلی پائے گئے اور صرف 91 مقدمات کی پیروی کی گئی۔ غیر رجسٹرڈ اور جعلی ادویات کی برآمدگی بھی انتہائی کم رپورٹ کی گئی ہے، جنوری 2020 سے مئی 2025 تک صرف 112 غیر رجسٹرڈ اور 3 جعلی ادویات کے مقدمات سامنے آئے۔ ایف آئی آرز کی تعداد بھی محض 8 رہی، جن میں سے 6 سال 2025 میں درج ہوئیں، جو اس جانب اشارہ ہے کہ قانون نافذ کرنے کا عمل سست روی اور علامتی اقدامات تک محدود ہے۔
ماہرین صحت نے اس صورتحال کو انسانوں کی صحت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فارمیسی پر سند یافتہ فارماسسٹ کی موجودگی کو یقینی بنانے، کولڈ چین انفراسٹرکچر کی فراہمی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرنا بہت ضروری ہے۔ قانون سازوں اور ماہرین نے ڈریپ اور صوبائی محکمہ صحت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمام فارمیسیوں کے لائسنس، فارماسسٹ کی نگرانی، اور درجہ حرارت کے مطابق دوا کی ذخیرہ اندوزی کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائیں۔ بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ صحت عامہ کے تحفظ کیلئے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔

