اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے انڈیا اسٹڈی سینٹر کے زیر اہتمام "پانچ اگست 2019: مسئلہ جموں و کشمیر میں ایک اور اہم موڑ” کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا جس کا مقصد کشمیری عوام کی جدوجہد، عزم اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنا اور بھارت کی غیرقانونی یکطرفہ اقدامات کی مذمت کرنا تھا۔ سیمینار میں سفارتکاروں، ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی اور بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور آبادی کی تبدیلی جیسے اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی، سفیر سہیل محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چھ سال سے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجی علاقہ بن گیا ہے جہاں کشمیری عوام پر ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں انتہا کو پہنچ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی ریاست کی ہر کوشش کے باوجود کشمیری عوام کے حقوق خودارادیت کے حصول کا جذبہ اور جدوجہد کم نہیں ہوئی۔ انہوں نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیلی طرز پر کشمیری مسلمانوں کو اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے، تاکہ ایک ’’سیٹلر کالونیل منصوبہ‘‘ نافذ کیا جاسکے۔
سفیر سہیل محمود نے مزید کہا کہ بھارت، کشمیری تحریک آزادی کو دہشت گردی سے جوڑ کر پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ اس کی آبی جارحیت اور ہندوتوا پر مبنی حکمت عملی خطے میں امن کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کا عادلانہ حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے اور خطے کے پائیدار امن کے لیے پاکستان، کشمیر اور عالمی برادری کو مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔
سیمینار کے مہمانِ خصوصی سابق صدر آزاد جموں و کشمیر سفیر مسعود خان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل مزید گہرے ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے حالیہ تنازعہ نے بھارت کی مبینہ فوجی برتری کے بیانیہ کو چیلنج کیا ہے اور کشمیر مسئلے کو ایک بار پھر خطے کے امن کا مرکز بنا دیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان اور کشمیری ڈائیسپورا کو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوششیں مزید تیز کرنی چاہئیں۔ انہوں نے سیاسی صورتحال میں کسی بھی تبدیلی پر پاکستان کو محتاط اور حکمت عملی کے ساتھ ردعمل دینے کا مشورہ بھی دیا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری سفیر عمران احمد صدیقی نے اپنے خطاب میں بھارت کی آبادیاتی اور انتخابی انجینئرنگ کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری سیاسی قیادت کو قید کرنا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی دراصل مقبوضہ کشمیر کی نمائندہ قیادت کو ختم کرنے کی ایک مذموم سازش ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کشمیر کے حق خودارادیت کی حمایت پر زور دیا اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ کشمیری عوام کے مصائب کو حل کرنے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔
ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر خرم عباس نے کہا کہ بھارت پانچ اگست کے بعد نقل مکانی، ثقافتی تبدیلی، اور آبی معاہدوں کو یکطرفہ طور پر تبدیل کر کے کشمیریوں کی شناخت مٹانا چاہتا ہے، جس سے خطے میں افراتفری اور عدم استحکام پیدا ہورہا ہے۔ ڈاکٹر شیخ ولید رسول نے کشمیری جدوجہد کی تاریخی اہمیت اور بھارت کی انتظامی پالیسیوں کے نتیجے میں کشمیری مسلمانوں کی محرومیوں کا جائزہ پیش کیا۔ ڈاکٹر راجہ قیصر احمد نے بھارتی آئینی بیانیے میں تبدیلیوں کو اجاگر کرتے ہوئے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ علمی تحقیق کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر بہتر انداز میں اجاگر کریں۔
کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے کہا کہ کشمیری عوام کے ساتھ وعدہ خلافیوں اور عالمی خاموشی کے باعث ان کے حوصلے پست ہورہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے مثبت کردار کو بھی اجاگر کیا اور عالمی فورمز پر مزید فعال ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ انسانی حقوق کی کارکن نائلہ الطاف کیانی نے بتایا کہ بھارتی اقدامات نہ صرف سیاسی بلکہ تہذیبی، ثقافتی اور لسانی شناخت کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی بنیادی شناخت چھیننے کے خلاف آواز اٹھانا اور مزاحمت جاری رکھنا ناگزیر ہے۔
سابق کنوینر کل جماعتی حریت کانفرنس محمد فاروق رحمانی نے کہا کہ عالمی حالات اس وقت پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے حق میں ہیں، جن سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بیرسٹر ندا سلام نے واضح کیا کہ کسی بھی بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت کو کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دینے کا اختیار نہیں ہے اور اس کا مستقبل صرف اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے تحت ہی طے کیا جا سکتا ہے۔
سیمینار کا اختتام آئی ایس ایس آئی کے چیئرمین بوآرڈ آف گورنرز سفیر خالد محمود کے تاثرات پر ہوا۔
