پاکستان اور روس کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری

newsdesk
3 Min Read

ماسکو میں دو ہزار پچیس میں ہونے والے پہلے روس–پاکستان یوریشیا فورم میں حکومتی حمایت کے ساتھ پاکستانی اور روسی علمی و تحقیقی اداروں نے شرکت کی۔ اس فورم کا محور پاکستان اور روس کے تعلقات کو مضبوط کرنا تھا، خاص طور پر غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز، عوامی رابطے اور علاقائی تعاون پر توجہ دی گئی۔سینیٹر مشاہد حسین نے کلیدی خطاب میں کہا کہ غیر روایتی سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون معاشی استحکام، باہمی اعتماد اور عوامی روابط میں مدد دے سکتا ہے۔ ان کے بقول عالمی طاقت کا محور مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور صدر ٹرمپ کی قومی سلامتی حکمتِ عملی نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے، اس تناظر میں یوریشیا ترقی پذیر جنوبی عالمی قوتوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔سینیٹر مشاہد نے کہا کہ یوریشیا کثیرالطرفہ نظام اس کثیرقطبی دنیا کو آگے بڑھائے گا اور پاکستان، روس، ایران، ترکی اور وسطی ایشیائی جمہوریائیں اس عمل کی رہنمائی کریں گی۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے یوریشیا کنیکٹیویٹی فورم کے قیام کا اعلان کیا جس کا دائرہ کار تجارت، ثقافت اور عوامی رابطوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں، کاروبار و ثقافت، تعلیم و توانائی اور عوامی رابطے یوریشیا کنیکٹیویٹی فورم کے بنیادی ستون ہوں گے۔ اس کے ساتھ انہوں نے سالانہ پاکستان اور روس کے مابین اسٹریٹجک مکالمے کی تجویز بھی پیش کی جس کی قیادت رائے ساز اور تجارتی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہو گی۔سینیٹر نے مزید کہا کہ نئے عالمی منظر نامے میں پاکستان اور روس کے مفادات میں بنیادی تضاد نہیں ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ پاکستان نے یوکرین کے معاملے میں متوازن اور مثبت رویہ اختیار کیا جبکہ روس نے بھارتی جارحیت کے دوران بیطرفی کا اظہار کیا، اور دونوں نے کسی نئی سرد جنگ کی مخالفت کی ہے۔ اس بنیاد پر انہوں نے دونوں حکومتوں سے کہا کہ وہ اس موقع کو بروئے کار لائیں اور اسلام آباد و ماسکو کے درمیان ایک وسیع تر شراکت داری قائم کریں۔پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی، روسی علماء، سفارت کار اور بین الاقوامی امور کے ماہرین فورم میں شریک رہے اور شرکاء نے میڈیا، اکیڈمیا اور تھنک ٹینکس کو کلیدی کردار دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ یوریشیا کنیکٹیویٹی فورم کے قیام کا مقصد یہی ہے کہ عوامی روابط اور علاقائی تعاون کو منظم انداز میں فروغ دیا جائے اور تجارت، تعلیم و توانائی کے شعبوں میں نئے مواقع تلاش کیے جائیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے