اسلام آباد میں ادارہ برائے علاقائی مطالعہ کے زیر اہتمام اور ازبکستان کے سفارت خانے کی معاونت سے ازبکستان کے اصلاحاتی سفر پر مبنی کتاب کی رونمائی منعقد ہوئی، جس میں سفارت کاروں، پالیسی سازوں، عالموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ موقع حکومت ازبکستان کی تبدیلیوں اور پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات پر تبصرے کا باعث بنا۔جاوہر سلیم نے کتاب کو ازبک اصلاحاتی سفر کی فکری اور منطقی عکاسی قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام دو بھائیاں قوموں کے درمیان سفارتی اور فکری تعلقات کو مضبوط کرنے کا اہم لمحہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ازبکستان نے آزادی کے بعد علاقائی مرکز کا کردار ادا کرنا شروع کیا اور یہ کتاب قیادت کی خدمت کے تصور پر مبنی عمیق عکاسی پیش کرتی ہے۔ازبکستان کے سفیر علیشر تختائف نے قومی اصلاحات کے نئے دور کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانی، معیشت، سائنس اور ترقی کے شعبوں میں جامع اصلاحات نے عوام میں اعتماد بحال کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جی ڈی پی ایک سو پندرہ ارب ڈالر سے بڑھ کر ایک سو چالیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ بیرونی زرمبادلہ ذخائر اڑتالیس ارب ڈالر سے بڑھ کر انسٹھ ارب ڈالر ہو گئے ہیں، جس سے معیشت کی مضبوطی کے واضح ثبوت ملتے ہیں۔دونوں ملکوں کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے سفیر نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان طویل المدتی تعاون اور باہمی اعتماد کی بنیاد پر حقیقی شراکت دار ہیں۔ انہوں نے آن لائن ویزا سہولت، تاشقند اور اسلام آباد و لاہور کے درمیان براہِ راست پروازوں میں اضافہ اور آئندہ سال کراچی کے لیے براہِ راست رابطے کے آغاز کو تعلقات میں پیش رفت قرار دیا۔ تجارت کی حجم میں بھی اضافہ متوقع ہے اور سنۂ موجود کے دوران چار سو چار ملین ڈالر سے بڑھ کر چار سو پچاس ملین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔حسن ارماتوف نے کتاب کو قیادت اور ریاستی تبدیلیوں پر مبنی تحقیقی و تجزیاتی کام کہا اور یاد دلایا کہ اس کتاب کی رونمائی پہلے اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورموں پر بھی ہو چکی ہے، جس سے اس کی عالمی پہنچ میں اضافہ ظاہر ہوتا ہے اور یہ پاک ازبک تعلقات کی مضبوطی کا آئینہ دار ہے۔ایلدور تولیاکوف نے گذشتہ آٹھ سالوں میں ازبکستان کے عوامی انتظام میں آنے والی بنیادی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق حکومت اور شہری کے رشتے کی نئی تعریف نے انسانی عزت کو پالیسی سازی کے مرکز میں رکھا ہے۔ شفافیت، حصہ دارانہ بجٹنگ، ادارہ جاتی احتساب اور خدمت محور حکمرانی اصلاحات کے اہم ستون بن چکے ہیں جو عوامی خدمات میں بہتری کا سبب بن رہے ہیں۔صدرِ پاکستان کے ترجمان سابق وزیر اطلاعات مُرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی قرابتیں گہری ہیں اور دونوں ممالک کیلئے تعلیم، زرعی تعاون، ٹیکنالوجی، ثقافت اور تجارت کے شعبوں میں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے ازبکستان کی اصلاحی رفتار کو ایک نوعیت کی تیسری نشاۃ ثانیہ قرار دیا جو کھلے پن، اختراع اور نوجوان آبادی پر مبنی ہے اور وسطی ایشیا کے ساتھ بہتر رابطے کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔تقریب میں سفارتی حلقوں، حکومتی اہلکاروں، محققین، صحافیوں اور طلبہ کی بڑی تعداد حاضر تھی۔ شرکاء نے کتاب کو ازبکستان کے اصلاحاتی سفر کی سمجھ بوجھ بڑھانے والا اور پاک و ازبک تعلقات میں مزید وسعت کی علامت قرار دیا۔
