ماحولیاتی کارروائی میں فوری عملی اقدام ضروری

newsdesk
5 Min Read
سی او پی تیس کے بعد پاکستان میں ماحولیاتی کارروائی کو عملی جامہ پہنانے، خوراک اور روزگار کے خطرات اور صوبائی تیاری پر زور دیا گیا۔

سید نوید قمر نے کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی کارروائی میں محض زبانی بیانات سے آگے بڑھ کر فوری اور منظم تیاری کرنی ہوگی تاکہ اگلے عالمی موسمیاتی اجلاس میں ملک مؤثر انداز میں مؤقف پیش کر سکے۔ یہ بات انہوں نے ادارۂ پالیسی برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار "بیونڈ بلیم” میں مہمانِ خصوصی کے طور پر کہی۔انہوں نے دو ہزار بائیس کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ عالمی تعاون کو حقیقی نتیجوں میں تبدیل نہ کرنے کی بنیادی وجہ اندرونی کمزور تیاری اور ادارہ جاتی صلاحیت کا فقدان ہے۔ انہوں نے سندھ ہاؤسنگ منصوبے کو شواہد کے ساتھ پیش کیا اور کہا کہ ٹھوس تیاری اور شفاف نگرانی سے کامیابی ممکن ہے۔ڈاکٹر شیزرا منصب خان کھرل نے کہا کہ سی او پی تیس کے نتائج غیر پابند وعدوں کی وجہ سے سوالیہ نشان ہیں، مگر پاکستان اپنی صلاحیت کے اندر رہ کر ماحولیاتی کارروائی کو آگے بڑھائے گا کیونکہ اس کے سوا چارہ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ این ڈی سی تین ایک مضبوط دستاویز کے طور پر پاکستان کی بات چیت کو تقویت دیتی ہے۔انہوں نے نقصان اور معاوضہ فنڈ کے حوالے سے اظہارِ مایوسی کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر آپریشنل کرنے کی کوششوں کے باوجود پاکستان کو خاطر خواہ مالی مدد حاصل نہیں ہوئی، تاہم بیلم میں پیش کیا گیا ماحولیاتی خوشحالی منصوبہ سبز نشوونما اور لچک کو مربوط کرنے کی مثال کے طور پر سامنے آیا۔ڈاکٹر عابد قیوم سلوری نے انتباہ کیا کہ ملک کے تکنیکی محکمے خصوصاً زراعت اور خوراک سے متعلق ادارے آئندہ کے لیے سب سے زیادہ معنی رکھتے ہیں مگر انہیں ابھی بھی اندرونی سطح پر کم تر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی کارروائی کے تقاضوں میں زرعی پیداوار، مویشیوں کی بقا اور خوراک کی رسد کو خطرات لاحق ہیں۔اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ عالمی حدِ حرارت ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ کے راستے سے بہت دور ہے اور اسلام آباد کے سردیوں کے درجہ حرارت تاریخی اوسط سے تقریباً چار درجے اوپر جا چکے ہیں، جس کے سدِ اثر کے لیے فوری حکمتِ عملی ضروری ہے۔عائشہ حمیرہ چوہدری نے وضاحت کی کہ سی او پی تیس نے عالمی جنوب کے لیے سفارتی فائدہ دیا اور پاکستان کو اپنے موافقتی تقاضوں کو واضح طور پر سامنے رکھنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دو بڑے سیلابوں نے ملک کو لگ بھگ دس فیصد جی ڈی پی کا نقصان پہنچایا، اس لیے قومی اور صوبائی سطح پر ترقی اور موافقت کے بیچ فرق واضح رکھنا لازم ہے۔سیمینار میں زور دیا گیا کہ ماحولیاتی کارروائی کے لیے نوجوان قیادت، چھوٹے کاروبار اور سول سوسائٹی کو فعال انداز میں شامل کرنا ہوگا۔ چھتوں پر سولر پی وی کے وسیع پیمانے پر نفاذ کو ملکی کامیابی قرار دیا گیا اور صوبائی سطح پر کا م کو یقینی بنانے کے لیے مراعات اور بہترین عملی نمونے وضع کرنے پر زور دیا گیا۔ڈاکٹر شفقات منیر احمد نے کہا کہ اگر سی او پی تیس کو "قدرتی اجلاس” کہا جائے تو پاکستان کو سی او پی اکتیس کو "آب و قرضے کا اجلاس” بنانے کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے تاکہ ہمالیائی برفانی پوش کو بچانے اور آبپاشی نظاموں کی حفاظت کے لیے عالمی سطح پر مضبوط میکانزم قائم کیا جا سکے۔تقریب کے دوران یہ واضح کیا گیا کہ ماحولیاتی کارروائی اب محض پالیسی کی بات نہیں بلکہ روزمرہ زندگی، معاشی پیداواری صلاحیت اور عوامی رویوں تک اثر انداز ہو رہی ہے؛ لہٰذا وفاقی اور صوبائی اداروں کے درمیان مربوط حکمتِ عملی، تکنیکی وزارتوں کی تقویت اور اندرونی مالی وسائل کی ترتیب ضروری ہے تاکہ ہم عالمی مباحثے میں مضبوطی سے اپنے مفادات کا دفاع کر سکیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے