اسلامی تعاون کی سائنس و ٹیکنالوجی پالیسی نفاذ کانفرنس

newsdesk
4 Min Read
اسلام آباد میں اسلامی تعاون کی سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی اور کومسیٹس کی کانفرنس میں پالیسی نفاذ کے خلاء اور نفاذی فریم ورک پر تبادلہ خیال ہوا

اسلام آباد میں 8 دسمبر 2025 کو اسلامی تعاون تنظیم کی سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی اور کومسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے مشترکہ اہتمام سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مقامی و بین الاقوامی ماہرین، پالیسی ساز اور طلبہ نے شرکت کی اور متعدد شرکاء آن لائن بھی جڑے رہے، اس موقع پر سائنس و ٹیکنالوجی پالیسی کے عملی نفاذ کے مسائل پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔کانفرنس میں نمائندہ پیغام پہنچاتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر مدثر اصرار نے موسمی تبدیلی، خوراک اور توانائی کی عدم تحفظیت و عوامی صحت کے خطرات کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ مسائل واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ہر ملک کو اپنے قومی سطح کے سائنس و ٹیکنالوجی پالیسی نظام کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ترقیاتی اہداف حاصل کئے جا سکیں۔تقریب کے مختلف موضوعاتی سیشنز میں پالیسی خلا، ادارہ جاتی رکاوٹیں اور علاقائی تجربات کا جائزہ لیا گیا۔ کومسیٹس یونیورسٹی کے ڈاکٹر حماد عمر نے ایس ڈی جی کے اہداف کے ساتھ پالیسی کو ہم آہنگ کرنے کے نظریاتی ماڈلز پر روشنی ڈالی جبکہ ڈاکٹر کلثوم سمرا نے براعظمی سطح کے پالیسی فریم ورکس اور ان کی مناسبیت پر تبصرہ کیا، اس تمام بحث میں سائنس و ٹیکنالوجی پالیسی کی عملی رہنمائی پر زور دیا گیا۔نوجوانوں اور ان کے مسائل پر پروفیسر ڈاکٹر معظّم خٹک نے مضبوط جدت اور کاروباری ماحولیاتی نظام کی ضرورت پر بات کی جبکہ ڈاکٹر طارق محمود علی نے پالیسی سازی کے لئے شواہد پر مبنی تحقیق کی اہمیت اجاگر کی، دونوں نے کہا کہ نوجوانوں کے لئے مواقع پیدا کئے بغیر پالیسی کا عملی نفاذ ممکن نہیں۔افریقہ سے نمائندہ ڈاکٹر اسماعیلہ دیالو نے اسلامی تعاون کے رکن ممالک میں بار بار سامنے آنے والی رکاوٹوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ مشترکہ حکمت عملی اور صلاحیتی تربیت ضروری ہے۔ کومسیٹس کی ڈاکٹر جاویریہ امبرین نے اداروں میں صنفی عدم مساوات کی طرف توجہ دلائی اور خواتین کی شمولیت بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا، جسے پالیسی نفاذ کا لازمی جز سمجھا گیا۔علاقائی مطالعۂ حالات میں ایران کے نیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے سائنس پالیسی کی ڈاکٹر مترا امین لو نے کامیابیوں اور ناکامیوں کی مثالیں شیئر کیں جبکہ برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر خلیل ملک نے یونیورسٹی اور صنعت کے درمیان تعاون کے کردار کو واضح کیا، انہوں نے بتایا کہ عملی شراکت داری سے اختراعی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے، جو حقیقی معنی میں سائنس و ٹیکنالوجی پالیسی کو تقویت دیتی ہے۔اختتامی سیشن میں ڈاکٹر اسماعیلہ دیالو کی جانب سے ایک مسودہ فریم ورک پیش کیا گیا جو رکن ممالک کو مؤثر پالیسی سازی اور نفاذ میں رہنمائی فراہم کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے، شرکاء نے نوٹ کیا کہ بہت سے ممالک کے پاس قومی حکمت عملیاں موجود ہیں مگر نفاذ کے خلاء ادارہ جاتی مضبوطی اور وسیع اسٹیک ہولڈر شمولیت کے بغیر دور نہیں ہوں گے، اسی بنیاد پر مزید ہم آہنگ اور مشن بنیاد حکمت عملیاں درکار ہیں تاکہ اسلامی تعاون کے علاقے میں پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کئے جا سکیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے