وزیر ماحولیاتی امور نے دریائے سندھ ڈولفن کی بقا پر خطاب

newsdesk
3 Min Read
وزیر نے ورلڈ وائیڈ فنڈ کی کانفرنس میں دریائے سندھ ڈولفن کی پچیس سالہ حفاظت، دریا راوی کی آلودگی اور سیلابی نقصانات پر گہری تشویش ظاہر کی

ڈاکٹر مسادق ملک نے ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر کی جانب سے منعقدہ پچیسویں سالانہ کانفرنس میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کے نتیجے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی گرمیاں اور گلیشیئر کے پگھلنے کے منفی اثرات واضح ہو رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ عوامل دریائے سندھ کے ماحولیاتی توازن کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں اور اس میں رہنے والی انواع خاص طور پر دریائے سندھ ڈولفن کو لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں۔وزیر نے دریائے راوی کی آلودگی پر خصوصی تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ راوی اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ وہ زراعت کے لیے بھی قابلِ استعمال نہیں رہا، چه تک کہ پینے کے پانی کا معیار بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔ ان کے مطابق آلودگی کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے امتزاج نے نہ صرف ماحولیاتی نظام کو دگرگوں کیا ہے بلکہ معاشی نقصانات اور انسانوں پر پڑنے والے بوجھ کو بھی بڑھایا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ سیلابی واقعات کے اقتصادی نقصانات ملکی مجموعی پیداوار کے نو اعشاریہ پانچ فیصد سے زائد بلائے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر مسادق ملک نے واضح کیا کہ مالی نقصانات کے مقابلے میں انسانی قیمت کہیں زیادہ المناک ہے اور پچھلے چار بڑے سیلابوں میں چار ہزار سات سو سے زائد افراد اپنی جانیں کھو چکے ہیں جبکہ سترہ ہزار سے زائد افراد مستقل معذوری کا شکار ہو چکے ہیں، یہ تعداد کسی ایک جنگ کے متاثرين سے بھی زیادہ ہے۔وزیر نے ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر کی پچیس سالہ کوششوں کی تعریف کی اور حکومت کی مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور ماحولیاتی تنظیمیں شانہ بشانہ کام کریں گی تاکہ دریا کے بقا اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے اقدامات کو مضبوط کیا جا سکے۔ ڈاکٹر مسادق ملک نے زور دیا کہ دریائے سندھ ڈولفن کی حفاظت محض ماحولیاتی ذمہ داری نہیں بلکہ انسانیت اور حیات کے تحفظ کا اخلاقی فریضہ ہے۔کانفرنس میں شریک ماحولیاتی تنظیموں کی طویل مدت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر نے تعاون اور پالیسیاں مربوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دریائے سندھ ڈولفن کے لیے محفوظ مسکن اور آبی معیار کی بحالی ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور آلودگی کے ماخذ کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے گی اور مقامی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی اپنائی جائے گی۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے