گلگت بلتستان کے نمائندہ قافلے کے حوالے سے سنگین شکایات سامنے آئی ہیں جن میں کھلاڑیوں اور نوجوانوں نے مبینہ مالی بدعنوانی کی تحقیقات کا فوری مطالبہ کیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پینتیسویں قومی کھیل کراچی میں شرکت کے لیے بنایا گیا قافلہ تنازعات کی زد میں آ گیا ہے اور مقامی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔اسپورٹس بورڈ کے سیکرٹری ضمیر عباس کی منظوری سے کھلاڑیوں کے وردی اور لوازمات کے لیے پچاس لاکھ روپے اور آمد و رفت و خوراک کے اخراجات کے لیے اضافی پچاس لاکھ روپے مختص کیے جانے کے باوجود سوالات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ ایک سو چھیس سے زائد متوقع کھلاڑیوں کے بجائے قافلے میں تیس تا چالیس افراد دیگر صوبوں سے شامل کیے گئے اور انہیں گلگت بلتستان کے کھلاڑی کے طور پر رجسٹر کیا گیا۔ اس صورتحال نے گلگت بلتستان بدعنوانی کے بارے میں شکوک و شبہات کو فروغ دیا ہے۔مقامی کھلاڑی اور نوجوان پوچھ رہے ہیں کہ اصل گلگت بلتستان کے کتنے کھلاڑی باضابطہ تصاویر اور اندراجات میں دکھائی دیتے ہیں، مقامی کھلاڑیوں کی جگہ دیگر صوبوں کے افراد کو کیوں شامل کیا گیا اور بقیہ مختص رقم کا مصرف کہاں ہوا۔ ان خدشات نے شفافیت اور احتساب کے تقاضوں کو اجاگر کر دیا ہے اور وضاحت کا مطالبہ نمودار ہوا ہے۔دیامر، گلگت، ہنزہ، نگر، استور اور غذر سمیت کئی اضلاع سے احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ نوجوانوں اور کھلاڑیوں نے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا اور ڈی جی احتساب میر وقار احمد سے فوری اور سخت تفتیش کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بروقت کارروا ئی نہ ہوئی تو بڑے پیمانے پر سڑکوں پر نکلنا ناگزیر ہو گا۔یہ واقعہ گلگت بلتستان بدعنوانی کے وسیع الزامات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور مقامی برادری مطالبہ کرتی ہے کہ معاملات کی مکمل چھان بین کر کے ذمہ داران کے خلاف شفاف کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ کھلاڑیوں کا حق تسلیم ہو اور عوامی وسائل کا درست استعمال یقینی بنایا جا سکے۔
