معروف سرکاری افسران کی زندگی اور پیشہ ورانہ تجربات پر مبنی آئی پی ایس کی نئی کتاب کی تقریبِ رونمائی

newsdesk
6 Min Read
نئی کتاب 'بیآنڈ دی فائلز' میں سول سروس کے تجربات اور ادارتی یادداشت کو محفوظ کیا گیا، پالیسی تشکیل اور فیصلوں کے پس منظر کی روشنی ملتی ہے۔

معروف سرکاری افسران کی زندگی اور پیشہ ورانہ تجربات پر مبنی آئی پی ایس کی نئی کتاب کی تقریبِ رونمائی

سرکاری تجربات کی روشنی میں طرزِ حکمرانی پر از سرِ نو غور و فکر کرنے کی ضرورت اجاگر

اسلام آباد: زبانی تاریخ بذریعہ قصّہ گوئی پاکستان کی فکری اور پالیسی سازی کی روایات کو مضبوط بنانے میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔ تصنیف ‘بیانڈ دی فائلز’ ایسی یادداشتوں پر مبنی ایک مجموعہ ہے جو معروف و تجربہ کار سرکاری افسران کے عملی تجربات کو ایک دستاویزی شکل دے کر پاکستان کے نظامِ حکمرانی کے کم معروف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ کتاب متنوع زاویۂ نظر کو پیش کرتی ہے، ادارہ جاتی یادداشت کو تقویت دیتی ہے اور آنے والی نسلوں کو ملک کی انتظامی تاریخ کا زیادہ مستند رخ فہم فراہم کرتی ہے۔ یہ خیالات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)کی نئی کتاب ‘بیانڈ دی فائلز: آ کنورسییشن وِد پاکستانی سِول سرونٹس’ کی تقریبِ رونمائی میں پیش کیے گئے۔ یہ تقریب نیشنل بُک فاؤنڈیشن (این بی ایف)، اسلام آباد کے اشتراک سے منعقد ہوئی، جس میں سابقہ سینئر سرکاری افسران، سفارتکاروں، پالیسی سازوں اور ماہرینِ تعلیم نے شرکت کی۔ تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور آئی پی ایس نیشنل ایڈوائزری کونسل (این اے سی)کے رکن پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد شریک ہوئے، جبکہ مقررین میں خالد رحمٰن ، چیئرمین آئی پی ایس، سید ابو احمد عاکف، مدیرِ کتاب و رکن آئی پی ایس این اے سی ، سابق سفیر سید ابرار حسین ، نائب چیئرمین آئی پی ایس ، سابق سفیر نگہت ہاشمی، ڈاکٹر مجیب افضل، اسسٹنٹ پروفیسر، قائداعظم یونیورسٹی ، اور مراد علی مہمند سیکریٹری ، این بی ایف شامل تھے۔ آئی پی ایس کے سرکردہ زبانی تاریخ کے پروگرام ‘دی لیونگ اسکرپٹس’ سے ماخوذ یہ اس سلسلے کی پہلی جلد اُن معروف اور تجربہ کار سرکاری افسران کی گوناگوں آوازوں کا ایک قیمتی ذخیرہ پیش کرتی ہے جنہوں نے حکمرانی کے بنیادی مراکز میں خدمات انجام دیں، پالیسی سازی میں حصہ لیا، بحرانوں کا مقابلہ کیا، اور ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات میں راستہ بنایا۔ تقریب میں اس امر پر زور دیا گیا کہ اس منصوبے میں شامل زبانی تاریخیں محض ذاتی یادداشتیں نہیں بلکہ ادارہ جاتی حافظے کا ایک ایسا ذخیرہ ہیں جو آنے والی نسلوں کو پاکستان کی بیوروکریسی کے مزاج ، اس کے چیلنجز اور فیصلہ سازی کے پیچیدہ ماحول کی اندرونی جھلک فراہم کرتا ہے۔ مزید یہ کہ زبانی تاریخ کو ایک ایسا دلکش اور مؤثر ذریعہ قرار دیا گیا جو مختلف نسلوں کی آوازوں اور تجربات کو یکجا کرتا ہے۔ تاہم، مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ زبانی بیانیوں کو متوازن تعبیر کے لیے وسیع تر حوالہ جاتی تناظر کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔ خاص طور پر ریٹائرڈ پیشہ ور افراد پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی عملی زندگی کے تجربات قلم بند کریں، کیونکہ اُن کی عکاس تحریریں پاکستان کے علمی سرمایے میں گراں قدر اضافہ کرتی ہیں۔ مقررین نے قومی ترقی میں مطالعے، غوروفکر اور دستاویزی کام کی اہمیت پر زور دیا۔ اگرچہ بہت سے سرکاری افسران تنقید کے خدشے کے باعث لکھنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن کلیدی فیصلوں کے قریب ہونے کی وجہ سے اُن کے تجربات نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ نوجوانوں میں بالخصوص مطالعے کے مضبوط رجحان کو پروان چڑھانا فکری نشوونما اور باشعور شہریوں کی تشکیل کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا۔ گفتگو کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ مثبت اور مشکل دونوں طرح کے تجربات کو ریکارڈ کرنا ضروری ہے تاکہ اہم اسباق ضائع نہ ہوں۔ ایسی دستاویزات نہ صرف مستقبل کے سرکاری افسران کی رہنمائی کرتی ہیں بلکہ طرزِ حکمرانی کے بارے میں قومی فہم کو بھی تقویت دیتی ہیں۔ اسی تناظر میں بیانڈ دی فائلز کو موجودہ اور آئندہ بیوروکریٹس کے لیے ایک لازمی مطالعہ قرار دیا گیا۔ مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مطالعہ محض معلومات کے حصول کے لیے نہیں بلکہ سیکھنے، بڑھنے اور ذاتی و ادارہ جاتی سطح پر بہتری لانے کے لیے ہونا چاہیے۔ ایماندارانہ خوداحتسابی کو اساتذہ، پالیسی سازوں اور سرکاری اہلکاروں کے لیے نہایت اہم قرار دیا گیا—خصوصاً موجودہ ادارہ جاتی اور تعلیمی زوال کے تناظر میں۔ اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ تحریر اور دستاویزات میں پاکستانی نقطۂ نظر کی جھلک ضرور ہونی چاہیے، نہ کہ بیرونی بیانیوں یا مستعار فکریاتی ڈھانچوں پر انحصار۔ انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ سچائی پر مبنی تحریر کا مقصد منفی تنقید نہیں بلکہ قومی حقیقتوں کے ساتھ ایک منصفانہ، متوازن اور دیانتدارانہ تعامل ہے۔ ان کے مطابق یہی طرزِ فکر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جو بیرونی اثرات کے بجائے مقامی تجربات، فکر اور زمینی حقائق پر مبنی ہونی چاہیے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے