پی ایس بی کوچنگ سینٹر پشاور کی بندش کھیلوں کو کمزور کرتی ہے

newsdesk
3 Min Read
پی ایس بی کوچنگ سینٹر پشاور کی اچانک بندش سے خیبر پختونخوا کے کھلاڑیوں اور کھیلوں کی ترقی کو سنگین نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

وفاقی ادارے کے زیرِ انتظام پی ایس بی کوچنگ سینٹر کی پشاور میں بندش نے خطے کے کھلاڑیوں اور کھیلوں کے ڈھانچے کے لیے تشویش پیدا کر دی ہے۔ پی ایس بی کوچنگ سینٹر کئی دہائیوں سے ایسے نوجوان کھلاڑیوں کو باقاعدہ تربیت اور محدود وسائل کے باوجود منظم کوچنگ فراہم کرتا رہا ہے، جس کی جگہ آسانی سے نہیں لی جا سکتی۔پی ایس بی حکام کے مطابق یہ مرکز وفاقی حدود میں آتا ہے اور اس کی بندش یا قبضہ صوبائی حکومت کا اختیار نہیں۔ اسی بنیاد پر متعلقہ انتظامیہ نے بارہا کہا ہے کہ پی ایس بی کوچنگ سینٹر کا وجود خیبر پختونخوا میں کھیلوں کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے اور اچانک بندش کھلاڑیوں کے لیے رکاوٹ بنے گی۔وفاقی حکومت نے دیگر صوبوں میں بھی فعال کوچنگ مراکز قائم رکھے ہوئے ہیں جن میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنٹرز شامل ہیں اور وہ نوجوانوں کو بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کے قابل بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں پشاور سینٹر کی بندش مساوی مواقع کے نظریہ کے خلاف مانی جا رہی ہے۔صوبائی حکومت کی دلیل کہ یہ مرکز غیر ضروری ہے یا صوبہ اس کے انتظام سنبھال لے، پی ایس بی حکام کے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔ مقامی کھیلوں کے میدان اور کمپلیکس ہونے کے باوجود پی ایس بی کوچنگ سینٹر کی فراہم کردہ ماہر کوچنگ، ساختی نظام اور تربیتی ماحول کو جلد از جلد بحال یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔پی ایس بی کوچنگ سینٹر کی بندش نہ صرف کھلاڑیوں کی روزمرہ تیاری متاثر کرے گی بلکہ اس اقدام سے وفاقی اور صوبائی تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ کھیلوں کے ادارہ جاتی امور میں ایسے قدم آئینی اور انتظامی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ایک خطرناک مثال قائم کر سکتے ہیں۔کھیلوں کے حلقے بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے کھلاڑی پہلے ہی محدود وسائل میں مقابلہ کر رہے ہیں اور پی ایس بی کوچنگ سینٹر کی بندش اس کمزور نظام کو مزید دشوار بنا دے گی۔ اس سے نوجوان ٹیلنٹ کے پروان چڑھنے کے امکانات کم ہوں گے اور صوبے کا کھیلوں کا معیار متاثر ہوگا۔حکام اور متعلقہ فریقین سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ تنازع کو بڑھانے کے بجائے تعاون اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ پی ایس بی کوچنگ سینٹر کی بحالی یا مناسب متبادل کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات دیرپا ہوں گے اور کھیلوں کی ترقی میں پیچھے مڑ کر دیکھا جائے گا۔متاثرہ کھلاڑیوں، کوچز اور کھیلوں کی تنظیموں کی آواز سنی جانی چاہیے تاکہ مختصر اور طویل مدت دونوں میں کھیلوں کے مفاد میں ٹھوس حل سامنے آ سکیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے