وزارتِ فلاح و سماجی تحفظ کے وزیر سید عمران احمد شاہ نے قومی غربت گریجویشن پروگرام کی کامیابی کو قابلِ ذکر قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اس مہم نے تین لاکھ ستر ہزار پانچ سو سڑسٹھ گھرانوں کو غربت کے دائرے سے مستقل طور پر نکال دیا ہے۔ قومی غربت گریجویشن کے ماڈل کو مثال قرار دیتے ہوئے وزیر نے کہا کہ منظم عوامی پروگرام لوگوں کی زندگی بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایک اعلیٰ سطحی سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے وزیر نے اس کامیابی کو مزید بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا اور بتایا کہ حکومت اس ماڈل کو پورے ملک میں پھیلانے کے لئے اسلامی ترقیاتی بینک کی معاونت سے چلنے والے نئے منصوبے پر عمل پیرا ہے، جو انتہائی غریب اور سیلاب سے متاثرہ گھرانوں کے لیے غربت گریجویشن کو نشانہ بنائے گا۔یہ پروگرام دو ہزار سترہ سے دو ہزار پچیس تک جاری رہا اور مجموعی لاگت ایک سو بتیس اعشاریہ چھ ملین ڈالر رکھی گئی۔ پروگرام بین الاقوامی زرعی ترقیاتی فنڈ کے ساتھ شراکت میں بائیس اضلاع میں عمل میں آیا اور اس کا بنیادی محور پیداواری اثاثوں کی فراہمی، بے سود قرضوں اور ہنر کی تربیت تھا۔اس اقدام نے خاص طور پر بینظیر امدادی پروگرام کے خاندانوں کو نشانہ بنایا، جن میں سے ایک لاکھ پینسٹھ ہزار آٹھ سو سات گھرانوں کو پیداواری اثاثے اور تربیت فراہم کی گئی، جبکہ تین لاکھ چار ہزار تین سو چوبیس بے سود قرضے باندھے گئے جو دو لاکھ چار ہزار سات سو ساٹھ خاندانوں تک پہنچے۔آزادانہ جائزے کے مطابق پروگرام کے متاثر کن نتائج سامنے آئے ہیں: پچپن فیصد مستفیدین بینظیر امدادی پروگرام کے معیار سے فاصلہ طے کر چکے ہیں، اسی فیصد خاندان انتہائی غربت سے باہر آئے ہیں، ایک لاکھ انہتر ہزار ایک سو انسٹھ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور خواتین کی بااختیاری کے شاخص میں اڑتالیس فیصد بہتری دیکھی گئی۔نوید احمد شیخ نے کہا کہ پروگرام نے ثابت کیا ہے کہ کمیونٹی پر مبنی اپروچ، خواتین پر توجہ اور ہنر، مالی سہولت اور مارکیٹ کے ساتھ روابط مل کر پائیدار غربت گریجویشن ممکن بناتے ہیں۔ فرنینڈا تھومز دا روچا نے بین الاقوامی زرعی ترقیاتی فنڈ کی جانب سے شراکت کے تسلسل کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عمل سماجی تحفظ کو پائیدار روزگار سے جوڑ کر معاشروں کو غربت سے نکالنے میں اہم سنگِ میل ثابت ہوا ہے۔وزارت نے واضح کیا کہ اس کامیابی کو وسیع تر پیمانے پر منتقل کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ قومی غربت گریجویشن کا طریقہ کار ملک گیر سطح پر قابل عمل ثابت ہو اور سیلاب سے متاثرہ، انتہائی غریب گھرانوں کے لیے بھی مستحکم روزگار اور معاشی خودمختاری کے راستے کھلے رہیں۔
