
بھائی بھائی کا دشمن!جہالت کے اندھیرے
تحریر: ظہیر احمد اعوان
دنیا آج ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ تعلیم نے قوموں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی دکھائی، برداشت، شعور اور بھائی چارہ سکھایا۔ مگر ہمارا معاشرہ ایک عجیب المیہ کا شکار ہے:جھوٹی انا اور ضد کی وجہ سے بھائی بھائی کا دشمن بنتا جا رہا ہے۔چھوٹے چھوٹے اختلافات، معمولی ناراضگیاں، وقت کے ساتھ انا کی بھینٹ چڑھ کر بڑے جھگڑوں، لڑائیوں بلکہ بعض اوقات قتل و غارت تک جا پہنچتی ہیں۔ دو خاندان ایک غلط فہمی کی بنیاد پر ساری زندگی ایک دوسرے سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ غمی خوشی، میل جول، دکھ درد سب ختم ہو جاتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر یہی اختلافات کسی کے سامنے بیان کیے جائیں تو خود انسان کو بھی شرمندگی ہوتی ہے، مگر جھوٹی انا پھر بھی انسان کو صلح اور نرمی کی طرف آنے نہیں دیتی۔ آج یہ برائی معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔سگے بہن بھائی، والدین اور قریبی رشتے دور ہوتے جا رہے ہیں جبکہ غیر لوگوں کے ساتھ گہری دوستیاں اور جان نچھاور کرنے والا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک اور فطرت کے خلاف رجحان ہے۔پہلے زمانے میں خاندانوں میں بڑے بزرگ ہوتے تھے جو حکمت، تجربے اور نرمی سے ناراض رشتوں کو جوڑتے تھے۔ کسی کی شادی ہو، بیماری ہو، حج یا عمرہ ہو، کوئی خوشی یا غمی ہو ان مواقع کو ناراض رشتے جوڑنے اور دل صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مگر آج یہ روایت بھی مدھم ہو چکی ہے۔ اب ہر چیز چھپانا، رشتہ داروں کو دور رکھنا اور معاملات کو خفیہ رکھنا "تدبر” سمجھ لیا گیا ہے۔ یہی سوچ خاندانوں کو بکھیر رہی ہے۔
نئی نسل خود کو عقلِ کُل سمجھتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب "پرانے زمانے کی باتیں” ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کی تعلیم میں تربیت کا عنصر کمزور پڑ گیا ہے۔ اس کے باعث اسلامی اخلاقیات، بڑے چھوٹے کی تمیز، والدین و رشتہ داروں کا احترام کم ہو گیا ہے، اور یہ کمی بے شمار معاشرتی بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔اسلام اخوت، برداشت اور معافی کا مذہب ہے۔ قرآن میں حکم ہے:
"اور آپس میں صلح کروا دیا کرو۔”(الأنفال: 1)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان سے تین دن سے زائد ناراض رہنا حلال نہیں۔”ایک اور حدیث میں فرمایا:”لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے۔”یعنی اسلام میں انا، ضد اور قطعِ تعلق کی سخت ممانعت ہے۔ جنت ان کے لیے نہیں جو دلوں میں کینہ رکھتے ہیں اور رشتے جوڑنے کے بجائے توڑتے ہیں۔دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ خاندانی نظام، اخلاقیات اور برداشت کو مضبوط کیا۔جاپان، چین، ملائیشیا، ترکی اور یورپ کے ممالک میں خاندان بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں بچے چھوٹی عمر سے سیکھتے ہیں کہ خاندان ٹوٹ جائے تو معاشرہ ٹوٹ جاتا ہے۔پاکستان، بھارت اور مشرقی معاشروں کی مضبوطی بھی ہمیشہ فیملی سسٹم رہی ہے، مگر اب یہ سسٹم کمزور ہو رہا ہے۔ جہاں خاندان ٹوٹتے ہیں، وہاں نفسیاتی بیماریاں، انتشار، جرائم اور تناؤ بڑھ جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی خوشحال معاشرے ہیں، ان کا مرکز مضبوط خاندان ہی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم رک کر سوچیں۔ہمیں جھوٹی انا، ضد اور غلط فہمیوں کو دفن کرنا ہوگا
- اسلامی تعلیمات کی طرف لوٹنا ہوگا
- بڑوں کی عزت، معافی اور برداشت کو زندہ کرنا ہوگا
- اختلافات کو پھیلانے کے بجائے ختم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی
- خاندان کو دوبارہ مضبوط بنانا ہوگا
- نئی نسل کو رشتوں کی اہمیت اور اخلاقیات سکھانی ہوں گی
اگر ہم آج اپنی انا سے باہر نہیں نکلے تو کل خاندان، معاشرہ اور آنے والی نسلیں اس کا نقصان اٹھائیں گی۔ بھائی چارہ، محبت اور صلح ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں جہالت کے اندھیروں سے نکال سکتا ہے۔
Read in English: Brother Against Brother — The Darkness of Ignorance
