انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد کے آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ سنٹر نے دفاعِ وطن کے موقع پر ایک تقریب منعقد کی جس میں موضوعِ بحث "مرکاِ حق اور جنوبی ایشیا میں مستقبلِ جنگی حکمتِ عملی” رکھا گیا۔ تقریب میں ادارے کے تحقیقاتی عملے، انٹرنز اور طلبہ نے شرکت کی جبکہ مقررین نے وطن کے دفاع، حالیہ تصادم اور مستقبل کی جنگی تکنیکوں پر تبصرے کیے۔
تقریب کے شرکاء کی ذمہ داریوں اور شرکت کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ اجتماع پاکستان کی مسلح افواج اور شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ دفاعی چیلنجز اور خطے میں بدلتے ہوئے سکیورٹی منظرنامے پر غور کا موقع بھی تھا۔ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نے تقر یب میں مسلح افواج کی بہادری اور قربانیوں کو سراہا اور بتایا کہ ماضی کے واقعات اور پڑوسی ملک کی پالیسیوں نے پاکستان کو عسکری تیاریوں اور دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر صلاحیتوں کے حصول نے وجودی خطرات کو پیچھے رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور پاکستان اب اس تاثر کو ختم کرنا چاہتا ہے کہ نیوکلیئر سطح کے نیچے محدود روایتی جنگ کا کوئی دائرہ کار موجود ہے۔
ڈائریکٹر جنرل نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ہمیشہ بات چیت اور تعمیری رابطوں کا حامی رہا ہے، مگر وہ ملک اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر حملے برداشت نہیں کرے گا اور مناسب جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی حوالے سے حالیہ بھارتی جارحیت پر ہونے والے پاکستانی ردِ عمل کو قومی عزم اور پیشہ ورانہ رابطہ کاری کی مثال قرار دیا گیا، جس نے بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ کو تقویت دی۔ انہوں نے دفاع کو ایک کثیرالجہتی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے قومی اتحاد، اقتصادی مضبوطی، سماجی ہم آہنگی اور دفاعی صلاحیتوں کی جامعیت پر زور دیا۔
آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ سنٹر کے ڈائریکٹر نے کہا کہ گذشتہ تصادم کے فوری بعد بھی پڑوسی ملک کی پالیسیوں اور کارروائیوں سے علاقائی امن اور مؤثر رواداری کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مخالف جانب نیوکلیئر اور روایتی جنگی حکمتِ عملیوں کی جانب جھکاؤ دیکھنے میں آ رہا ہے، اور اس کے جواب میں پاکستان کو اپنے دفاعی نظام، خاص طور پر ہدف پہنچانے کے ذرائع اور جدید صلاحیتوں، کو جدید شکل دینے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ حملے یا غیر ارادی کشیدگی کا موثر طور پر جواب دیا جا سکے۔
تقریب میں دو ریسرچ اسسٹنٹس نے "مرکاِ حق اور جنوبی ایشیا میں مستقبلِ جنگ” کے موضوع پر پریزنٹیشن دی۔ انہوں نے ایک متنازع واقعے اور اس کے جواب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ کے میدانِ جنگ میں مربوط کثیرالحدی آپریشنز کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت، ڈرون ٹیکنالوجی، ہائپر سونک میزائل، سائبرسکیورٹی اور نیٹ ورک سینٹرک وارفیئر جیسی ابھرتی ہوئی اور بگاڑ والی ٹیکنالوجیز خطے میں جنگی منظرنامے کو تبدیل کریں گی۔ انہوں نے دفاعی دن کے جذبے کو مستقبل کے چیلنجز کے ساتھ جوڑتے ہوئے بتایا کہ ماضی کی قربانیوں کا تقاضا ہے کہ ہم آئندہ کے تنازعات کے لیے تیار رہیں۔
انٹرایکٹو سیشن میں شرکاء نے اس سال دفاعِ وطن کے موقع کی خصوصی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ نوجوان نسل کے لیے یہ دن محض ماضی کی ایک جنگ تک محدود نہیں رہا بلکہ تازہ واقعات نے اس کی معنویت کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک کا نیوکلیئر اسٹیٹس خطے میں توازنِ طاقت کا ایک نمایاں عنصر ہے، جبکہ جدید ہتھیاروں کی اہمیت کے باوجود اصل فیصلہ کن عنصر حکمتِ عملی اور قومی عزم ہی ہوتے ہیں۔
