پنجاب کے دو اضلاع گجرات اور وہاڑی میں دو صحافیوں پر مقدمات درج ہونے کے بعد مقامی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں نے ان مقدمات کو "آزادانہ اور تنقیدی صحافت کو دبانے کی کوشش” قرار دے دیا ہے۔ صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے حالیہ منظور شدہ قانون، جو صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اس کے باوجود ریاستی ادارے ابھی تک تنقیدی آوازوں کو خاموش کرانے کی روش پر قائم ہیں۔
گجرات میں چیف ایگزیکٹو ہیلتھ آفیسر کی جانب سے سما ٹی وی کے رپورٹر ذوالفقار حیدر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ یہ مقدمہ اس وقت قائم ہوا جب ذوالفقار حیدر نے ضلع صحت کے محکمے میں مبینہ بدعنوانی اور سہولتوں کی خستہ حالت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی، جن میں سرکاری افسر کے کام میں رکاوٹ، دھمکی آمیزی اور غیر قانونی اجتماع شامل ہیں۔
اسی طرح، تین دن بعد وہاڑی کے صحافی محمد اسلم پر بھی مقدمہ درج کیا گیا۔ ان کا "جرم” یہ تھا کہ انہوں نے حکومت کی فنڈڈ ایک سڑک کے تعمیراتی معیار پر سوال اٹھاتے ہوئے اس کی ویڈیو رپورٹنگ کی۔ پولیس نے محمد اسلم کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت سائبر ہراسگی اور ہتک عزت کے الزامات عائد کیے۔
یہ دونوں ایف آئی آرز اس وقت سامنے آئیں جب حال ہی میں سینٹ نے متفقہ طور پر "تحفظ صحافیان و میڈیا پروفیشنلز ایکٹ” میں ترمیم کی ہے، جس میں نہ صرف صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، بلکہ ان کو دورانِ فرائض ہراساں کرنے یا روکنے پر سخت سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں۔ قانون کے مطابق اس قسم کے الزامات پر سات سال قید یا تین لاکھ روپے جرمانہ، جبکہ روکنے پر پانچ سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ تاہم، ان مقدمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے اس قانون کی روح کے برعکس عمل کیا۔
بین الاقوامی فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی حمایت کرتے ہوئے ان مقدمات کو "تنقیدی صحافت کے خلاف کریک ڈاؤن” قرار دیا۔ آئی ایف جے کی صدر ڈومنیک پرادالی نے کہا کہ نئے قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے، جو کہ مزید تشویش کا باعث ہے۔ پی ایف یو جے نے اپنے بیان میں ان مقدمات کو جعلی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر ایف آئی آرز واپس نہ لی گئیں تو ملک گیر احتجاج شروع کیا جائے گا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے صحافتی رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور آئی ایف جے کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے صحافیوں کے لیے آواز اٹھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں حکومتی ادارے عموماً قوانین کا غلط استعمال کرکے صحافیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، جبکہ ان پر ہونے والے جرائم کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
مقامی صحافیوں اور شہریوں کے مطابق، گجرات میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ پہلے ہی میڈیا کی تنقید کی زد میں تھا اور یہ کارروائی دراصل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وہاڑی میں بھی زیر بحث سڑک منصوبے کی ناقص تعمیر پر پہلے ہی عوام شکایات کررہے تھے۔
حالیہ واقعات سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ پنجاب میں نئے تحفظاتی قانون کے باوجود ریاستی ادارے اب بھی صحافیوں کو سچائی سامنے لانے پر نشانہ بنانے میں دیر نہیں لگاتے، جبکہ اصلاحات کی بجائے پیغامبر کو سزا دینا زیادہ آسان سمجھا جاتا ہے۔
