اسلام آباد (اویس علی سے)
وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے کے شعبہ ماحولیات) کی جانب سے ایف نائن پارک میں منعقد ہ کھلی کچہر کوعوامی ردعمل سے بچنے کے لیے سی ڈی اے ملازمین کو بیٹھا کر سیمینار میں تبدیل کر دیا جبکہ شعبہ ماحولیات سے وابستہ افراد کی جانب سے سی ڈی اے کے شعبہ ماحولیات کے افسران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا دیئے جس پر ممبر انوئرمینٹ کیپٹن (ر)انوار الحق سیمینار میں فرضی حاضری کے بعد چھوڑ کر چلے گئے جبکہ ڈی جی انوئرمینٹ بھی مہمانوں کے سوالات اور مسائل پر بات کرنے کی بجائے صرف یقین دھانی کروانے کے بعد سیمینار کو ختم کر دیا۔
ہاؤسنگ سکیموں کا کلین اینڈ گرین اسلام آباد منصوبے میں بڑھ چڑھ کر شرکت
گزشتہ روز ایف نائن پارک کے کلب میں سی ڈی اے کے شعبہ ماحولیات کی جانب سے سیمینار کا انعقاد کیا سمینار کا مقصد اسلام آباد میں لگنے والے پودوں سے ملنے والے فائدے اور نقصانات کے بارے میں تجربہ کار افراد سے رائے لی گئی اس حوالے سے مہمانوں کو دعوت دی گئی جس میں ایگزیکٹو ڈائریکٹرکمیونکیشن نیٹ ورک منیر احمد،رومانا گل کاکڑممبر انسپیکشن،ڈاکٹر پرویز احسان واٹر مینجمنٹ،ڈاکٹر وقار ذکریااسلام آباد وائلڈ لائف کے بورڈ ممبر،نیشنل انسٹیٹیوٹ ہیلتھ الرجی سینٹر کی انچارج ڈاکٹر نگہت ،وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ڈی آئی جی فوریسٹ یعقوب علی خان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔سیمینار سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد وائلڈ لائف کے بورڈ ممبرڈاکٹر وقار ذکریا نے سی ڈی اے افسران کی توجہ اس بات پر دلائی کہ اسلام آباد میں سی ڈی اے حکام کی جانب سے لگائے جانے والا پودا (paper mulberry)بہت نقصان دہ پودا ہے
اسلام آباد کا گرینڈ گارڈن: جمہوریت اور ماحولیاتی استحکام کو خراج تحسین
جسے سی ڈی اے کی جانب سے پورے اسلام آباد میں سال 2021میں لگایا گیا تھا اس پودے کی وجہ سے لوگوں میں الرجی،استما،پھیپڑوں کے مسائل سمیت دیگر بیماریوں میں اضافے سے اسلام آباد کے ہسپتال بھر گئے ہیں لوگوں کو عوامی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں کو بھی اس پودے سے نقصان پہنچا تاہم سی ڈی اے کی جانب سے اس پودے کو نہ ہٹایا جا سکا جو آج تک شہریوں کے لیے بیماریوں کو سبب بن رہا ہے۔ڈاکٹر وقار ذکریا کا کہنا تھا کہ 1960میں پورے اسلا م آباد میں شتوت،دریک،پلائی،شیشم،کیکر،زیتون کے پودوں کے علاوہ کوئی پودے نہیں تھے
سی ڈی اے نے تمام رہائیشی عمارتوں میں بارش کا پانی جمع کرنے کے لیئے ریچارج کنوؤں کو لازمی کار دے دیا
ان پودوں سے شہریوں کو بہت فائدہ پہنچتا تھا تاہم بیرون ممالک سے آنے والے پودے (paper mulberry)،(lantana)پودا،جنگلی کیکربرآمدات کرنے کی وجہ سے یہ پودے اسلام آباد میں بیماریوں کا سبب بنے ہیں۔این آئی ایچ الرجی سینٹر کی انچارج ڈاکٹر نگہت نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مریض آرہے ہیں جو اسلام آباد میں الرجی کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں سانس کی بیماری اسلام آباد کے اندر عام ہو گئی اگر فوری طور پر ان پودوں کو سی ڈی اے کی جانب سے انہیں ختم نہ کیا گیا تو یہ انسانی جانوں کو دیمک کی طرح ختم کر دے گا۔سیمینار سے خطاب میں ممبر انسپیکشن رومانا گل کاکڑنے بات کرتے ہوئے اس چیز پر زور دیا کہ درخت پودے ایکو سسٹم سے تیار ہوتے ہیں ہرپودے درخت کا ایک دوسرے سے سلسلہ ہونے سے درخت بڑھتے ہیں ان کی جڑیں پھیلتی ہیں۔انسانی جانوں کو نقصان پہنچنے والے پودوں کو ختم کر کے دوبارہ ان کی جگہ نئے پودے جو انسانوں جانوروں کو فائدہ دے سکیں ان پودوں کو دوبارہ سے لگانا ہو گا تاہم سی ڈی اے افسران کی کوتاہیوں کی وجہ سے عملی طور پر کوئی کام نہیں ہو رہا سی ڈی اے کے شعبہ ماحولیات کے افسران کا علم ہی نہیں کو ن ڈائریکٹر کون ممبر انوئرمینٹ ہے نہ یہ رابطے کر رہے ہیں جس کی وجہ سے انسانی جانیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹرکمیونکیشن نیٹ ورک منیر احمدکا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کے شعبہ ماحولیات کے افسران پورے اسلام آباد میں قبضہ مافیا جو گرین بیلٹ پر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں اور پورے اسلام آباد کے حسن کو تباہ کر رہے ہیں سی ڈی اے افسران ان کے خلاف کاروائی نہیں کر رہے ہیں اسلام آباد سے سی ڈی اے افسران کی مبینہ ملی بھگت سے درخت کاٹے جارہے ہیں کوئی کاروائی نہیں کی جارہی افسران بالا کو گرین بیلٹس کی تباہی سے آگاہ کرنے کے باوجود افسران دفتروں تک محدود ہیں ممبر ماحولیات اسلام آباد میں انسانی جانوں کو نقصان پہنچانے والے پودوں کو ختم کیوں نہیں کروا رہے جو سی ڈی اے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔سیمینار کے آخر میں واٹر مینجمنٹ سے وابستہ ڈاکٹر پرویز احسان نے ملک میں پانی کے بحران پربات کی ڈاکٹر پرویز کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہر گھر بننے والے پانی کے بور سے پانی کی سطح میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جو پانچ سال کے بعد اس اسلام آباد کے شہری پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے روزانہ ہزاروں بور ہونے سے زمین میں پانی کی سطح میں مسلسل کمی جو اب پانچ سو فٹ تک چلی گئی جو کہ بہت نقصان دے ہے اگر سرکاری اداروں حکومتی ایوانوں کی جانب سے اس پر کام نہیں کیا گیا تو پورے ملک میں پانی کا بحران ہو جائے گا شہری پیٹرول کی قیمت کے عوض پانی کی خریداری کریں گے جو کہ انتہائی مشکل گھڑی ہو گی ملک میں ایسے پودے لگائے جائیں جن پر پانی کا کم استعمال ہو تمام اسٹیک ہولڈرز پانی کے بحران پر کام کریں پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلی کے فائدے تلاش کر رہی ہے انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں اس وقت پانی کی سطح بہت کم ہو گئی ہے وہاں پانی کے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں حکومتی ایوانوں اورسی ڈی اے کو ایک قانون بنانا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کروانا چاہیے کہ جس گھر میں پانی کو بور کیا جائے گا وہاں بارش کا پانی کی سٹور کرنے کے لیے جگہ مختص کی جائے گی اگر یہ کام پورے ملک میں نہ کیا گیا تو پاکستان کے شہری پانی جو کہ ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے اس کے بحران کے خدشات بڑھنے لگ گئے ہیں۔
تبصرے